حمد
بزمِ ہستی مری کیا ہے مجھے معلوم نہ تھا
میرے اندر تُو چھپا ہے مجھے معلوم نہ تھا
اپنے مشتاقِ زیارت سے حجاب آخر کیوں
یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
میں اسے ڈھونڈتا پھرتا تھا تمام عالم میں
خانۂ دل میں خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
عارضی حسن کے آغاز نے دل موہ لیا
اس کا انجام فنا ہے مجھے معلوم نہ تھا
کھوکھلا کر دیا جس نے کہ مجھے اندر سے
میری قاتل تو انا ہے مجھے معلوم نہ تھا
خانۂ دل میں ہوئی خوشبوئے جاناں محسوس
پھول صحرا میں کھلا ہے مجھے معلوم نہ تھا
جس بتِ کافرِ مطلق کو میں سمجھا سورج
وہ اثرؔ بجھتا دیا ہے مجھے معلوم نہ تھا