گلشن کو چلو
صورتِ خارِ بیاباں ہو تو گلشن کو چلو
طالبِ فصلِ بہاراں ہو تو گلشن کو چلو
حسن کے خالق سے دل کا رابطہ ہو جائے گا
مبتلائے عشقِ نسواں ہو تو گلشن کو چلو
شاداں و فرحاں نہ واپس ہو تو پھر کہنا مجھے
شدتِ غم سے پریشاں ہو تو گلشن کو چلو
زہد و تقویٰ تو بہت مرغوب شے کا نام ہے
زہد و تقویٰ سے ہراساں ہو تو گلشن کو چلو
روح کی بیماریاں ہرگز نہیں ہیں لاعلاج
تم اگر صحت کے خواہاں ہو تو گلشن کو چلو
دامنِ گل عیب پوشی کا سبب بن جائے گا
بدتر از خارِ مغیلاں ہو تو گلشن کو چلو
پر بِنا پرواز ہو گی درد و غم ہو گا پرے
تم جو پریوں سے پریشاں ہو تو گلشن کو چلو
دیکھ لو خود بلبلِ شیدا کے نالوں کا اثرؔ
گُل کی شادابی پہ حیراں ہو تو گلشن کو چلو