کیفِ احسانی
رابطہ کم ہوگا جتنا عالمِ فانی کے ساتھ
روح نکلے گی اثرؔ اتنی ہی آسانی کے ساتھ
گو پریشانی تو ہے اس سیلِ عریانی کے ساتھ
حلوئہ ایمان بھی تو ہے فراوانی کے ساتھ
حبِّ دنیا دل میں ہو تو عشق مولیٰ ہے محال
آگ رہ سکتی نہیں ہرگز کبھی پانی کے ساتھ
کوئی صوبہ بھی بغاوت کر نہ پائے جسم کا
دل پہ بھی پہرہ ہو آنکھوں کی نگہبانی کے ساتھ
دوستی مطلوب ہے تو دشمنوں سے دور رہ
فضلِ رحمانی نہ ہوگا کارِ شیطانی کے ساتھ
زندگی بھر کی ریاضت کا اسے حاصل کہیں
ایک سجدہ بھی اگر ہو کیفِ احسانی کے ساتھ
خواہشاتِ نفس بھی قربان ہوں تو بات ہے
عیدالاضحی پر اثرؔ بکرے کی قربانی کے ساتھ
حکمتِ دینی و دنیاوی کا سنگم ہے یہاں
نفعِ جسمانی بھی ہوگا فیضِ روحانی کے ساتھ