ایک دوست کے یونیورسٹی کو خیر باد کہنے پر اسکی تسلی کہ لئے معترضین کو منضوم جواب
کلّا بل تحبونَ العاجلہ وتذرون الآخرہ
ہرگز نہیں بلکہ تم محبوب رکھتے ہودنیاکو اور چھوڑ بیٹھے ہوآخرت کو
مجھے یہ غم کہ مری آخرت کا کیا ہوگا
اسے یہ فکر کہ دنیا مری خراب ہوئی
اسے گماں کہ ہے مقصد نظر سے پوشیدہ
مجھے یقیں کہ حقیقت خیال و خواب ہوئی
اسے یہ دکھ کہ میں دنیا میں ہوگا ناکام
مجھے خوشی مری کوشش تو کامیاب ہوئی
اسے ملال کہ مجھ پر ہی آزمائش کیوں
میں اس پہ خوش کہ ادھر نظرِ انتخاب ہوئی
پھر آج اشک کے دریا میں آگیا طوفاں
پھر آج بستیِ رخسار زیرِ آب ہوئی