عقلمندی کا تقاضا
دل نہ پہلو سے نکلنے کی شکایت کرتے
کاش ہم لوگ نگاہوں کی حفاظت کرتے
بے وفائی کا گلہ سنگ سے کرنا ہے عبث
چین مقصود تھا تو عشقِ بتاں مت کرتے
نفس کی آفت و شر سے جو کبھی پاتے نجات
پھر مناسب تھا کہ اظہارِ شرافت کرتے
عقلمندی کا تقاضا بھی یہی تھا اے دوست
مرنے والوں پہ نہ مرنے کی حماقت کرتے
اب تو کچھ محسنِ اصلی کا کہا بھی مانو
اک زمانہ ہوا دشمن کی اطاعت کرتے
دیکھ لیتے وہ اگر جلوئہ جاناں کی بہار
میرے حالات پہ احباب نہ حیرت کرتے
تب کہیں جانِ تمنا کی رسائی ہوتی
زندگی خونِ تمنا سے عبارت کرتے
رحمت حق کی بہاریں کہ متوجہ ہوتیں
گر اثر آپ معاصی کی نہ زحمت کرتے