ضعیفوں سے التجا
میں ہوں کیا اور میری حقیقت ہے کیا
میں کسی کو نصیحت کروں کیا بھلا
میرے طرزِ تخاطب سے ہوں مت خفا
مجھ میں برداشت کا اب نہیں حوصلہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
سوئے منزل چلا زیست کا قافلہ
شب کی تاریکی پھیلی ہے دن ڈھل گیا
ٹمٹمانے لگا زندگی کا دیا
اب ہے پیشِ نظر قبر کا مرحلہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
پہلے بچپن گیا پھر لڑکپن گیا
دیکھتے دیکھتے ہی جواں بن گیا
اب تو عہدِ ضعیفی میں ہر فن گیا
اب تو مسجد کا آسان ہے راستہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا