روح سلوک |
|
شوقِ وصالِ یار رکھا ہے ہم نے آپ کے غم کو سنبھال کر مسرور ہیں خوشی کا جنازہ نکال کر شوقِ وصالِ یار لئے انتقال کر دنیا کے چھوٹنے کا نہ ہرگز ملال کر تجھ کو یقین ہے کہ تجھے ہوگی کل نصیب رکھا ہے کام آج کا جو کل پہ ٹال کر فکرِ معاش جتنی ہو اتنا ہی ذکرِ حق منصف مزاج ہے تو ذرا اعتدال کر ہوگا خدا کے قرب کا خورشید بھی طلوع آفاق دل کو خونِ تمنا سے لال کر دے گا اثرؔ خدا کی عدالت میں کیا جواب خلوت میں اپنے دل سے کبھی تو سوال کر