گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
نورانیت ہے اس کے پہننے میں شرم آتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: کیا بھروسا ہے زندگانی کا انسان بلبلا ہے پانی کا جی رہے ہیں کپڑے بدل بدل کر اِک دن اِک کپڑے میں چلے جائیں گے کندھے بدل بدل کر اگر اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں، تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی تو دل کہے گا : ـ’’ او نادان! اپنی آنکھوں اور کانوں کے بجائے کبھی مجھ سے بھی پوچھ لیا کر، میں بھی کچھ دیکھتا ہوں کچھ سنتا ہوں۔ ‘‘ ہم نے آج کے الیکٹرونک دور میں دل سے پوچھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اسی واسطے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوبm فرماتے تھے: تیرا اے نئی روشنی! منہ ہو کالا دلوں میں اندھیرا ہے باہر ہے اجالا دلوں کا سکون ہے؟ اور کہاں سے ملتا ہے؟ یہ اللہ کی یاد سےمیسر آتا ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۰۰۲۸ (دلوں کا سکون تو یاد الٰہی میں ہے) ایک آدمی کے پاس مال ودولت کوٹھی گاڑی ہر چیز ہے مگر ذہنی سکون نہیں۔ ذہنی سکون کا مرکز روح ہے۔ روح کا پیٹ مال ودولت سے نہیں بھرا جا سکتا۔ اسے بھی خوارک کی ضرورت ہے اور اللہ والے اُس کی خوراک ذکر وغیرہ سکھاتے پڑھاتے ہیں۔ جب روح کا پیٹ بھرتا ہے تو دل بھی پرسکون ہوجاتا ہے۔ اسے اللہ کی یاد کی صورت میں غذا مل جاتی ہے۔ اور غذا ملنے کے بعد دلوں میں روشنی آنے لگتی ہے۔ جسے ایمان کا نور کہتے ہیں۔ ایمان کا نور سنت کی اتباع کیےبغیر نہیں ملتا۔ جیسے جیسے زندگی سنت کے مطابق قریب ہوتی ہے، قیمتی سے قیمتی