گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
سے کہ جی! میں ذرا صوفی نظر آؤں، ان کو بھی پتا چلے کہ میرے گھر میں کچھ نہیں۔ یا میرے پاس ہے لیکن میں اتنا سادہ ہوں، میں پانچ ہزار والا پہن سکتا ہوں، دو ہزار والا پہن سکتا ہوں، مگر میں تو بیس سال پرانا پھٹا پہن کر آیا ہوں، لوگ مجھے سمجھیں کہ بڑا نیک ہے۔ اب یہاں بھی پکڑ ہے۔ دونوں باتیں سمجھیے!ناپسندیدہ لباس : حضرت عبداللہ بن عمرhکی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک وہ جو اپنی خوبی کی وجہ سے مشہور ہوجائے، اور دوسرا وہ جو اپنی بدنمائی کی وجہ سے مشہور ہوجائے۔ (طبرانی، مجمع جلد5صفحہ 138) جس حال میں اللہ نے رکھا ہے اس کا شکر ادا کریں اور اس حال کے مطابق لباس کو پہنیں۔ اگر کوئی انسان غریب ہے یا کوئی عالم ہے، یا کوئی ایسا آدمی جسے لوگ دیکھتے ہیں۔ عالم کو لے لیجیے کہ پھٹا پرانا کپڑا پہن کر آجائے کہ لوگ دیکھ کر سمجھیں کہ یہ تو بڑا ہی اللہ والا ہے، بڑا ہی درویش ہے، اگر اس کی نیت ایسی ہے تو وہ بھی گناہ گار ہوجائے گا۔ ہاں اگر ہے ہی نہیں وہی موجود ہے اور نہیں ہے اور نیت بھی وہ نہیں ہے تو بات پسندیدہ بھی ہو سکتی ہے۔ بات تو دل کے اوپر ہے، معاملہ تو دلوں کا ہے، نیتوں کا ہے۔ایک صحابی کا جواب : عبداللہ بن عمرi یہ ایک صحابی ہیں، اُن سے کسی شخص نے پوچھا کہ بتایئے! لباس کیسا ہو؟ تو آپh نے جواب فرمایا کہ ایسا ہو کہ نہ تو بیوقوف لوگ اُسے حقارت سے دیکھیں، اور نہ شریف لوگ اُسے معیوب سمجھیں۔ (مجمع جلد 5صفحہ 138) یعنی اوسط درجہ کا ہو بہت ہی گھٹیا بھی نہ ہو، اور بہت ہی بڑھیا بھی نہ ہو، درمیانہ سا ہو۔