گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
جب ان کا انتقال ہوا تو تبرکاً برکت کے حصول کے لیے ان کی قبر میں نبیd کے مبارک عصا کو رکھا گیا۔ (مصنف عبدالرزاق جلد3صفحہ185) جب کہ آج کل عصا کا استعمال شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ بات ذراسمجھیے ! عصا کے استعمال کے اندر ایک قسم کی تواضع ہے، مسکنت ہے، کمزوری کا اظہار ہے اور تواضع اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ جو جتنی تواضع اختیار کرے گا اللہ رب العزت اس کو اتنی برکتیں عطا فرمائیں گے۔ چنانچہ جو لوگ اس کا استعمال کریں گے قیامت کے دن اس سنت کو زندہ کرنے والوں میں ان کا شمار ہوگا۔عصا کا قرآن مجید میں ذکرـ : قرآن مجید میں بھی عصا کا ذکر آتا ہے۔ ذرا غور کیجیے گا! حضرت موسیٰd جب اللہ رب العزت سے ملنے پہلی مرتبہ جبل طور پر تشریف لے گئے تو اللہ رب العزت نے اپنے کلیم سے ہم کلامی کی: وَ مَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۰۰۱۷ (طٰہٰ:17) ’’اے موسیٰ! تمہارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘؟ عرض کیا: قَالَ ھِیَ عصَایَ اَتَوَكَّؤُا عَلَيْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى۰۰۱۸(طٰہٰ :18) ’’اے اللہ! یہ عصا ہے۔ اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے واسطے پتے جھاڑتا ہوں اور کبھی میرے کام آتا ہے‘‘۔ اے موسیٰ! اسے چھوڑ دو زمین پر پھینک دو تو موسیٰd نے اپنے عصا کو زمین پر