گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
کررہےہیں کہ میں اُن کافروں جیسا نظر آؤں یہ نیت اس کو حرام کردیتی ہے۔تشبہ اور مشابہت میں فرق: تشبہ اور مشابہت دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ تشبہ کے معنی ہیں کہ آدمی ارادہ کرکے نقالی کرے، اور ارادہ کرکے اُن جیسا بننے کی کوشش کرکے یہ تشبہ ہے۔اور حدیث شریف بیان ہوئی: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْہُمْ (ابو داؤد: کتاب اللباس) انسان ارادۃً کوئی کام کافروں جیسا کرے، غیروں جیسا کرے تو ارادہ شامل ہوگیا، تو اب معاملہ بدل گیا کہ اس کا ارادہ ہی ایسا ہے کہ میں نے نبیd، صحابہ کرامj کے پیچھے نہیں چلنا، بلکہ میں نے تو اللہ کے نبیﷺ کے دشمنوں جیسےلباس پہننے ہیں اُن فاحشہ عورتوں جیسے لباس پہننے ہیں، یعنی کہ نیت بدل گئی، نسبت بدل گئی یہ بات ناجائز ہے۔مشابہت کسے کہتے ہیں؟ اور ایک چیز ہوتی ہے ’’مشابہت‘‘۔ یہ کیا چیز ہوتی ہے کہ ان جیسے بننے کا ارادہ نہیں تھا، دل میں یہ نیت نہیں تھی کہ میں کافروں جیسی نظر آؤں یا کافروں جیسا نظر آؤں، فلاں ایکٹر جیسا نظر آؤں۔ دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے لیکن عمل کے ساتھ مشابہت از خود ہوگئی۔ یہ جو خود بہ خود مشابہت پیدا ہوجائے یہ حرام تو نہیں لیکن حضورِ پاکﷺ نے بلا ضرورت مشابہت پیدا ہونے سے بچنے کی تاکید فرمائی کہ اسلام کی ایک غیرت ہے، ایک تشخص ہے، ایک معیار ہےلہذا اس کو باقی رکھا جائے۔ امید ہے کہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔