گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
ٹیک بھی لگاسکتا ہے۔ (شمائل کبریٰ جلد1صفحہ362) تفسیرِ قرطبی میں علامہ قرطبیm نے ذکر کیا کہ حجاج بن یوسف نے ایک دیہاتی کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں عصا ہے تو اس سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ عصا ہے جسے میں نماز پڑھتے وقت آگے رکھ کر سُترہ بنا لیتا ہوں تو مجھے مدد مل جاتی ہے۔ پھر میرے جانور ہیں جنہیں مجھے لے جانا ہوتا ہے، تو یہ عصا مجھے وہاں بھی کام دیتا ہے کہ میں ان کو ہانکتا ہوں۔ اور سفر میں اس کے سہارے چلتا ہوں۔ مجھے قوت ملتی ہے، مدد ملتی ہے، چلنے میں اس کا سہارا لے کر اپنا قدم بڑھاتا ہوں۔ پھر کہنے لگے: کبھی مجھے نہر میں چھلانگ لگانی پڑے نہانے کے لیے تو اس عصا کے ذریعے میں اپنے نہانے میں بھی مدد لیتا ہوں۔ گرنے کی صورت میں، پھسلنے کی صورت میں، مجھے اس سے مدد رہتی ہے۔ سڑک خراب ہو، اُونچائی پر چڑھنا ہو، نیچے اُترنا ہے تو یہ مجھے مدد دیتا ہے اور میں گرنے اور پھسلنے سے محفوظ رہتا ہوں۔ پھر دھوپ کے وقت میں کپڑا ڈال کر اس کے اوپر ایک چھتری سی بنا لیتا ہوں، اس سے مجھے سایہ ہوجاتا ہے۔ اور میں کہیں جاتا ہوں کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو اس عصا سے میں دروازہ بھی کھٹکھٹاتا ہوں اسی طرح راستے میں چلنے والے کتے کے کاٹنے سے بھی محفوظ رہتا ہوں۔ تو بہت سارے فائدے گنوادیے۔ (شمائل کبریٰ جلد1صفحہ362)بروز قیامت تھوڑے لوگ : ایک حدیث میں نبیd نے فرمایا کہ قیامت کے دن عصا استعمال کرنے والے بہت کم ہوں گے۔ حضرت عبداللہ بن اُنیس بن اسلمیh کونبیd نے عصا ہدیہ (Gift) دیا اور فرمایا کہ لو اسے استعمال کرو، قیامت میں اس کو استعمال کرنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ (بہت تھوڑے ہوں گے جو اس سنت کو پورا کرکے لائیں گے)،