گلدستہ سنت جلد نمبر 2 |
|
جو امتیاز ہیں، جو خاص چیزیں ہیں، کہیں ان کی مکسنگ (Mixing) نہ ہو جائے۔ اختلاط نہ ہوجائے، گڈ مڈ نہ ہوجائیں، کوئی فرق نہ آجائے۔ تو انہوں نے دو احکامات جاری کیے تاکہ اسلامی تہذیب اور رسم ورواج میں فرق رہے۔ ایک حکم مسلمانوں کی طرف اور ایک کافروں کی طرف۔ مسلمانوں کو کہا کہ دیکھو! تم نے کافروں کے طریقوںپر نہیں رہنا، رسولِ اکرمﷺ کے طریقوں پر رہنا ہے۔ اور کافروں کو کہا کہ دیکھو! تم اپنے طور طریقوں میں رہو، تم ہمارے طریقے مت اختیار کرو، تاکہ الگ الگ طریقے واضح رہیں، مماثلت نہ ہوجائے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر بن خطابh نے ایران میں مقیم مسلمانوں کو یہ پیغام بھیجا کہ مشرکین اور کافروں کے لباس سے دور رہیں۔ حافظ ابن حجرm نے فتح الباری میں لکھا کہ جامع بیان ان کی طرف سے بھیجا گیا۔ یہ فاروقی بیان ملاحظہ کریں: اے مسلمانو! ازار اور چادر کا استعمال کرو یعنی لنگی اور چادر بھی پہن لیا کرو۔ اور پاجامہ تو بہرحال مسنون ہی ہے اس پر بات ہوچکی ہے۔ تم مسلمانوں والا لباس استعمال کرو، اور جوتے پہنو۔ جد امجد حضرت اسماعیلd کے لباس کو لازمی پکڑو۔ عجمیوں کے لباس یعنی غیروں کے لباس، ان کی وضع قطع اور ہیئت سے دور رہو۔ موٹے اور کھردرے کپڑے پہنو (جو تواضع کا سبب ہیں)۔حضرت عمر کا دوسرا فرمان : مسند احمد بن حنبل کے اندر بھی ایک روایت ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر آذر بیجان میں پہنچا، اور چلتے ادھر آگئے جہاں پر یہ رشین اسٹیٹس ہیں ازبکستان، آذربیجان وغیرہ۔ تو جب مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا تو فاروق اعظمh کا فرمان بھی ان کو ملا۔ اُس زمانے