تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
میں سعی ہوتی ہے اور یا کسی آنے والے ضرر کے روکنے میں اور یا موجودہ نقصان کے روکنے میں۔ پہلی صورت جلب منفعت کہلاتی ہے اور اس کے تین سبب ہیں کہ یا تو سبب اختیار کرنے میں نفع کا حصول یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو اور یا محض موہوم ہو۔ متیقن الحکم اسباب کو عطاء خداوندی سمجھنا اور دل سے ان پر اعتماد نہ کرنا ضروری ہے: پہلی حالت یقینی کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص بھوکا ہواور کھانا بھی اس کے سامنے رکھا ہو مگر وہ ہاتھ نہ بڑھائے اور نوالہ بنا کر منہ تک نہ لے جائے اور کہے کہ میں متوکل ہوں یا مثلا بیٹے کا طالب ہو مگر بیوی سے جماع نہ کرے یا مثلا غلہ کا خواہاںہو مگر بیج کھیت میں نہ ڈالے سوایسا خیال تو محض جہالت اور بوالہوسی ہے کیونکہ ان اسباب پر مسبب1 کا تفرع2 یقینی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے قاعدہ کے طور پر تجویز فرمادیا ہے اور اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا پس اس بات کااختیار کرنا شرعا ضروری ہے البتہ ان اسباب میں توکل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ اول: اس کا خیال رکھے کہ طعام اور ہاتھ اللہ کے دئیے ہوئے ہیں اور کھانے کی قدرت بھی اس کی عطا کی ہوئی ہے اسی طرح بیج اور کھیتی کرنے کی استعداد اسی نے عطا فرمائی ہے اسی طرح بیوی اور نطفہ اور جماع کی طاقت سب اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ دوم: یہ کہ ان اسباب پر بھی دل سے بھروسہ نہ ہو بلکہ دل سے خالق ہی پر بھروسہ رہے کیونکہ دل سے اسباب پر بھروسہ کرنا سراسرغلط خیال ہے چنانچہ ظاہر ہے کہ ابھی ہاتھ پر اگر فالج کااثر ہوجائے یا مثلا کھانا زمین ہی پر گر جائے یا بیچ کو کیڑا لگ جائے یااولہ گر پڑے یا گرمی کھاجائے تو مقصود کی صورت بھی نظر نہ آئے۔ الغرض ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھ کر سعی اور کوشش کرنے اور اسباب کے اختیار کرنے میں ہمیںکچھ مضائقہ ہے اور نہ اسباب کااختیار کرنا توکل کے خلاف ہے۔ ! وہ شئے جو مسبب سے ہے۔ یعنی نتیجہ