تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
کے موافق اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفع روزانہ حاصل کرو اور خرچ کر ڈالو باقی سارا وقت اللہ کی یاد میں خرچ کرو۔ اور اگر اس سے زیادہ کمائو گے اور جمع کرو گے تو دنیا دار اور مال دار سمجھے جائو گے اور اگر کوئی زمین جائیداد جس کی سالانہ آمدنی مذکورہ مقدار کے موافق ہو جائے اس نیت سے خرید لو کہ روزانہ کسب اور محنت مزدوری سے سبکدوش ہو کر اطمینان کے ساتھ اللہ اللہ کر سکو گے تو فی زمانہ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ جائیداد کا خریدنا اور زمین و مٹی میں روپیہ لگانا اس وقت ناجائز ہے جب کہ دنیا طلبی کے لئے ہو کہ عزت و جاہ میں ترقی یا زمین دار بننے کی دل میں خواہش ہو اور مذکورہ صورت میں چونکہ دین ہی کا حاصل کرنا مقصود ہے۔ اس لئے یہ اس ممانعت سے خارج ہے جو رسول مقبولa نے فرمائی ہے (تم جائیداد حاصل نہ کرو کہ دنیا سے محبت کرنے لگو۔) اس کے ساتھ ہی اس کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے کہ طبائع اور ہمتیں مختلف ہوتی ہیں ممکن ہے کہ بعض لوگ مذکورہ قدر کفایت پر قناعت نہ کر سکیں لہٰذا ان کے لئے اس سے دو چند کی بھی اجازت ہے کیونکہ دین میں تنگی نہیں ہے البتہ اس زیادتی میں نیت یہی ہونا چاہیے کہ چونکہ تخفیف میں مشقت پیش آتی ہے اور عبادت میں اطمینان نہیں ہوتا اس لئے ہم کو بااطمینانِ قلب یادِ حق میں مشغول رہنے کے لئے زائد خرچ کی ضرورت ہے نہ کہ تلذذاور تنعم (مزہ پانا نعمت میں رہنا) کے لئے بس اس سے زیادہ جو کوئی جمع کر کے رکھے وہ دنیادار ہے اور اس کو مال کی محبت ہے جو اس کا دین برباد کرنے والی ہے۔ یادرکھو کہ مال جمع کرنے والوں کی غرض مختلف ہوتی ہے یا تو یہ کہ مزے آئیں گے یا لذتیں پائیں گے اور یا یہ کہ موقع اور وقت پر آئندہ صدقات و خیرات کریں گے اور زیادہ دور اندیشی اور اس مصلحت کے لئے جوڑ کر رکھتے ہیں کہ اگر کسی وقت افلاس آگیا یا محنت مزدوری نہ ہوسکی یافاقہ کشی کی نوبت آئی تو یہ پسماندہ پونجی کام آئے گی حالانکہ یہ تینوں نیتیں درست نہیں ہیں کیونکہ تلذذ اور تنعم تو اللہ سے غافل بنانے والی ہے اور خیرات کی نیت سے مال جمع کرنے کی بہ نسبت تو بہتر یہ ہے کہ مال ہی پاس نہ ہو۔ اب رہا آئندہ کے لئے مال جمع کرنا جس کا نام دوراندیشی ہے سو وہ تو کوئی چیز ہی نہیں کیونکہ اگر تقدیر میں فاقہ کشی اور مصیبت لکھی ہے تو