ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
عاقبت سازو خرا ازدیں بری ایں تن آرائی وایں تن پروری اور ان کے مقابل ایک وہ لوگ ہیں جو مباحات میں اس قدر تنگی کرتے ہیں جس سے کفر ان نعمت کا درجہ پیدا ہوجاتا ہے اگر ان کے یہاں وسعت مباحات کی بدولت اسراف اکا درجہ پیدا ہوا تھا تو ان کے یہاں کفر ان نعمت کا درجہ پیدا ہوگیا - یہ دوری جانب حد سے زیادہ چل پڑے خود رائی بھی کمبخت ہے بری چیز - یہ سن فساد اس خود رائی کا ہے - اب ان لوگوں کی حالت سنئے کسی نے اچھا کھانا چھوڑ دیا کسی نے ٹھنڈا پانی چھوڑ دیا حتی کہ بعض نے بیوی بچوں کو چھوڑ دیا بعض نے آبادی اور گھر کو چھوڑ کر جنگل اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنالیا - منشا ان چیزوں کا نفس کی شرارت ہے کہ اس سے شہرت ہوجاتی ہے وہ مثل صادق آتی ہے کہ روپیہ کو روپیہ کمانا ہے تو اس صورت میں دنیا کو دنیا سے کمایا جاتا ہے یہ سب دنیا ہی عام لوگ ان باتوں کے سبب بزرگ سمجھنے لگتے ہیں اور تارک دنیا سمجھ کر گردیدی اور معتقد ہوجاتے ہیں پھر خوب روپیہ کماتے ہیں - ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ ٹھنڈا پانی پیتے ہیں میں نے جواب دیا کہ یہ تو صغریٰ ہے اور کبریٰ کیا ہے ٹھنڈا پانی پینا منع ہے ناجائز ہے یہ سب خرافات ہیں مگر ان باتوں کو درویشی میں داخل کر رکھا ہے ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے پانی ٹھنڈا پیو کہ روئیں روئیں سے الحمد اللہ نکلے کیسی محققانہ اور حکیمانہ بات فرمائی - واقعی یہ حضرات حکیم ہیں اور حضرت ہی فرمایا کرتے تھے کہ خوب کھاؤ پیو اور خوب نفس سے کام لو اور صاحبو ؟ آخر نفس کے بھی تو کچھ حقوق ہیں یہ سب افراط تفریط ہے مگر لوگوں کو ان باتوں میں مزا آتا ہے حالانکہ یہ دونوں حالتیں مذموم ہیں جب خدا نے ہمارے لئے ایک چیز کو جائز فرما کر حکم دیا کہ کلوا واشربوا تو کھاؤ پیو ہاں اس کا خیال رکھو کہ ولا تسرفو بھی فرمایا ہے - اسی افراط تفریط کے متعلق مولانا نے خوب کہا ہے ـ