ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
چوں گر سنہ شوی سگ می شوی چونکہ خودری تندو بدرگ می شوی خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ تو انہمال کے ساتھ مشغول ہو کہ اس میں بالکل ہی کھپ جاؤ اس لئے کہ ایسی حالت میں اس دنیا سے جدا ہونے کے وقت سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے اور یہ اس لئے کہ جو چیز محبوب ہوتی ہے اس کے جدا ہونے کے وقت جو شخص اس محبوب سے جدا کرنے والا ہوتا ہے اس سے قلب میں دشمنی ہوجاتی ہے تو کہیں بوقت موت اور جان کندنی کے قلب میں حق تعالیٰ کے ساتھ دشمنی نہ ہوجاوے - یہ بڑی خطرناک بات ہے اور انہ اتنا غلو کرو کہ دنیا کو بالکل ہی ترک کردو یا کسب دنیا کو بالکل ہی چھوڑ دو - اعتدال یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کسب کو تو نہ چھوڑو کہ اس سے حدود میں رہ کر دین میں مدد ملتی ہے اور حدود سے گزر کر جو درجہ حب دنیا کا ہے اس حب دنیا کو چھوڑ دع اس لئے کہ یہ بڑی بیوفا ہے اس نے کسی کو اچھوتا نہیں چھورا سب کو داغی بنادیا اور یہ داغی ہونا باغی ہونے کی یعنی حدود سے گزرنے کی وجہ سے ہوا کیا دنیا سے محبت کر کے آخرت سے محبت کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہو جب تم کو اس فانی اور ناپائدار مردار دنیا کہ معمولی چیزوں سے استغنا نہیں اور ان کی ضرورت ہے بلکہ بلا ضرورت بھی اس میں انہماک کا درجہ ہے اور اس کی طلب اور اس کی محبت میں تم اس قدر چور اور مست ہوئے ہو کہ آخرت کو بھلادیا اور اس کے حصول میں تم نے اپنی جان مال عزت آبرو سب کچھ فنا کردیا تو اگر کسی کو اخرت اور اللہ رسول کے ساتھ ایسا ہی شدید تعلق ہو اس طرف انہماک ہو تو تم اس کو دیوانہ بتلاتے ہو اور اگر یہی بات ہے صاحبو تم بھی دیوانہ ہو اور وہ طالب اخرت بھی دیوانہ ہے مگر فرق دونوں کی دیوانگی میں یہ ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں ما اگر قلاش و گر دیوانہ ایم مست آں ساقی دآن پیمانہ ایم حاصل یہ کہ خالق کو چھوڑ دینا اس کے احکام سے منہ موڑ لینا اصل