ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
روشنی کے اصول سے بی اے والوں کو تفیسر پڑھاتے تھے - یہاں جب آئے میں نے کہا کہ اس ضرورت ہی کیا ہے - کہنے لگے کہ قدیم طرز کی تفسیر سے ان لوگوں کو تشفی نہیں ہوتی اس لئے جدید طرز تفسیر پڑھاتا ہوں اور اس جدید طرز کے متعلق وہ یہ سمجھے یوئے تھے کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے ماخوذ ہے جو محض غلط ہے - میں نے ان سے کہا کہ یہ محض غلط خیال ہے کہ قدیم طرز کی تفیسر سے تشفی نہیں ہوسکتی - آپ دو طالب علم بی اے لیجئے جن کی طبیعت ایک سی ہو - علم یکساں ہو اور ایک ہی مسئلہ ہو - ایک کو آپ جدید طرز پر سمجائیں اور ایک کو میں پرانے طرز پر سمجھاتا ہوں اور پھر ان کا تقابل کرایئے معلوم ہوگا کہ کہ کون سمجھا اور کون نہیں سمجھا - کہنے لگے کہ آپ سمجھا سکتے ہیں میں نے کہا کہ جب میں سمجھا سکتا ہوں تو تم یہ کام چھوڑ دو میرے سپرد کردو - کہنے لگے بہتر - دہلی چل کر رہو اور وہاں رہ کر پڑھاؤ - میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے - انگریزی خواں طلبہ کو یہاں بھیج دئے نہ کسی چندہ کی ضرورت ہو گی نہ طالب علموں کا زیادہ خرچ ہوگا اور کام ہوجائے گا - پھر کچھ نہیں بولے خاموش ہوگئے اور کوئی بات نہیں صرف وہی بات ہے جو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کمبخت منحوس نیچریت کا اثر اور جھلک اب سب میں نظر آنے لگی اس کا بڑا ذہریلا اثر ہے جیسے کسی زمانہ میں ہوا میں سمیت پیدا ہوجاتی ہے بس وہ حالت اس ہو رہی ہے - ( ملفوظ 318 ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے جذبات کی رعایت فرماتے ہیں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ عین وقت پر ھق تعالیٰ مدد فرماتے ہیں - ضرورت کی چیز دل میں ڈال دیتے ہیں میں ان کا بڑا ہی فضل اور رحمت سمجھتا ہوں ایک مرتبہ میں گھر کی چند بچیوں