ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
اس وقت طمل کرتہ پہن رہا ہوں اگر کوئی کہئے کہ گاڑے کا کرتہ پہن لو تو مجھ سے نہیں پہنا جائے گا یوں تو خدا کی نعمت ہے اور خدانخواستہ کوئی کبر بھی نہیں مگر عادت جو نہیں اس سے تعب ہوتا ہے ہاں مصلح کے ہاتھ میں ہاتھ دیدنے کے بعد پھر رائے کو اپنی عادت کو بالکل دخل نہ دینا چاہئے اگر وہ ڈھاکہ پہنائے دو پہنو چکن بہنائے وہ پہنو طمل پہنائے وہ پہنو گاڑہا پہنایے وہ پہوناٹ پہنائے وہ پہنو جنود خداوندی کی کوئی وردی نہیں ایک مرتبہ میں نین سکھ پہن لیا بس معلوم ہوا کہ نین سکھ نین سکھ ہی ہے ( نین آنکھ سکھ چین یعنی دیدہ اپنی آنکھوں کی چین ) بدن سکھ نہیں تمام بدن آگ لگئی اس کا عادت سے تعلق ہے ایک مرتبہ میرے پاؤں میں ایک پھانس لگ گئی تھی جو دیھکنے میں بھی نہ آئی تھی اس سے کئی روز بے چین رہا اور ایک شخص ننگے پروں پھرتا ہے بڑے بڑے کانٹے چبھ جاتے ہیں وہ پروا بھی نہیں کرتا اسی طرح کسی کو تو ذرا اسی بد تمیزی کی بھی برداشت نہیں ہوتی بعض گو بڑے بڑے واقعات پر بھی احساس نہیں ہوتا یہ سب عادت پر موقوف ہے - ( ملفوظ 481 ) حدود مسادات ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل مسادات کا بڑا زور ہے نہ اس کے حدود ہیں نہ اصول نہ قواعد مسادات مطلوبہ با محمودہ کی حقیقت سے بے خبر ہیں اس لئے فطری اور قدرتی چیزوں میں بھی دخل دینا چروع کردیا کیونکہ بعض تفاوت تو فطری چیز ہے بڑا ہی پر فتن زمانہ ہے مساوات مذکورہ جو ہے وہ حقوق اور معامالت میں ہے نہ فضائل میں ہے نہ طبائع میں نہ احکام میں نہ امور فطریہ میں ان میں سے کسی میں بھی مسادات نہیں یہ لوگ بے سمجھے آیتیں حدیثیں بگھارتے پھرتے ہیں دیکھئے خود حضرات انبیاء علہیم السلام میں بھی جو کہ حقائق کے ہادی ہیں ان میں مساوات نہیں فرماتے ہیں تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض تو جنہوں نے مساوات سھلائی ہے خود ان میں وہ