ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
تھوڑے سے وجدی بھی ہوتے تو خوب ہوتا اگر ایسا ہوتا تو مکہ سے آنے والوں سے ہم لوگ یوں کہا کرتے - باز گواز نجد ازیار ان نجد تادرد دیوار را آری بوجد ایک اور مولوی صاحب نے لکھا تھا کہ مجھ کو اول تو محدثین سے محبت ہے اور پھر فقہاء سے اور پھر صوفیہ سے میں نے لکھا کہ میری محبت کی ترتیب بالکل اس کے عکس ہے پھر یہ مولوی صاحب حج کو گئے تو واپس آکر نجدیوں کی بہت شکایتیں لکھیں میں نے جوب دیا کہ ان سب شکایات کا سبب نجدیوں میں اسی چیز کی کمی ہے جس کو تم نے تیسرے درجہ میں رکھا تھا باقی اپنی اپنی رائے ہے لیکن ہر حال میں ضرورت جامع کی ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس شخص کی صحبت اختیار کرو جو صوفی بھی ہو فقیہ بھی محدث بھی ہو - وہ شخص صحبت کے قابل ہے واقعی ٹھیک فرمایا گو کود حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ پر محدثیت کا رنگ غالب ہے مگر محقق ہونے کی شان سے یہ تحقیق فرمائی اور یہ ضروری بات ہے کہ اگر حدیث نہ چاہتا ہوگا تو بدعت کی بدعت کی طرف مائل ہو جائے گی - ( ملفوظ 463 ) حضرت حکیم الامت کی والدین کی رعایت فرمانا ایک شخص نے بخارکا تعویز مانگا کا لفظ تو زور سے کہا اور تعویز کو آہستہ سے جس کو حضرت والا سن نہ سکے فرمایا کیوں تکلیف دیتے ہو معلوم نہیں بخار کے بعد آہستہ سے کیا کہہ دیا اس کی بالکل ایسی مژال ہے جیسے ایک واعظ تھا لٹیرا اس کے گھر میں ایک مرگ آگھسا اب سن نے اس کو جائز کرنے کی صورت نکالی کہ اس کا علان اس طرح کیا کہ یہ مرغ تو چہکے سے کہتا اور کس کا ہے زور سے جب کوئی نہ بولا بس کھا گئے اس شخص نے عرض کیا کہ بخار کا تعویز چاہئے فرمایا کہ چپکے سے کس مصلحت سے کہتے تھے اگر کوئی خاص حکمت اس میں تھی تو