ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
( ملفوظ 186 ) انسان کی خاصیت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ انسان کی خاصیت ہے کہ دوسرے کے تنقیص کی کوشش کرتا ہے اپنے معائب اور غلطیوں پر غور نہیں کرتا اور نہ ان پر نظر ہوتی ہے اسی لئے اکثر رائے میں غلطی ہوتی ہے اور دوسرے کی رائے کو قبول نہیں کرتے چنانچہ میں نے فلاں مدرسہ والوں کو مشورہ دیا تھا کہ ایک دم سب کے سب مدرسہ کو چھوڑ دیں یعنی مدرسہ کا کام چھوڑ دیں کہ جس کا جی چاہئے کام کرے - اگر اس وقت مدرسہ والے اس مشورہ پر عمل کرلیتے اور مدرسہ کو چھور دیتے تو یہ سارے فتنے دب جاتے ایک دم شورہ شغب بند ہوجاتا اور پھر یہی مخالف لوگ مدرسہ والوں کی خوشامد کرتے کہ تم ہی سب کچھ ہو اور تم ہی مدرسہ اپنے نظام میں رکھو مگر اب اہل مدرسہ کے نہ چھوڑ نے سے دوسروں کو بھی ضد ہوگئی اور جب انسان ضد اور ہٹ پر اتر آتا ہے پھر حق نا حق کچھ نظر میں نہیں رہتا اور میں اسی واسطے ہمیشہ اپنے دوستوں کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ تم کبھی کسی الجھن میں مت پڑو جہاں الجھن دیکھو ایک دم اس کام کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ انسان ہے نفس ہے نفسانیت ہی جاتی ہے اصل مقصود تو دین کی خدمت ہے یہاں پر نہیں کہیں اور سہی یہ کام نہ سہی اور کوئی دین کا کام سہی ایک کام کو کیوں مقصود سمجھا جائے مقصود تو دین کے ہر کام سے رضاء حق اور قرب حق ہے وہ جس سے بھی حاصل ہوجاوے نہ سہی مدرسہ گھر پر بیٹھ کر ایک دو طالب علم ہی کو سبق پڑھا دیا یہ بھی تو وہی کام ہے مدرسہ نہیں مدرسی ( یعنی چھوٹا سا مدرسہ ) سہی رہا کثرت درس سونیت بہت سے اسباق پڑھانے کی رکھو لیجئے مدرسہ ہی کا ثواب نامہ اعمال میں لکھا جائے گا کام کم اور ثواب زیادہ نقصان کیا ہوا خوا مخواہ قصہ جھگڑے کرتے پھرتے ہیں اور قصوں اور جھگڑوں سے ایک بہت بڑی چیز برباد ہوتی ہے جس کی ہمیشہ اہل اللہ اور خاصان حق سلف صالحین نے حفاظت کی ہے وہ یکسوئی ہے اگر یہ یکسوئی اپنے پاس ہے تو پھر چایئے اپنے