ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
دیتا جیسے یہ دونوں ہیں معلوم ہوتا ہے میں ادھورا ہی مرجاؤں گا - اپنے تلامذہ اور مریدوں کے سامنے یہ بات - اس بے نفسی کو ملا حظہ کیجئے - اس کے بعد اتفاق سے مکہ معظمہ کا سفر ہوا اور حضرت کی خدمت میں پیاس بجھ گئی - ( ملفوظ 299 ) کم بولنا فی نفسہ مقصود نہیں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک مولوی صاحب نے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بیباکی کے ساتھ پوچھا کہ حضرت آپ بولتے بہت ہیں حالانکہ بزرگوں نے زیادہ بولنے کی ممانعت کی ہے - نہایت بشاشت سے جواب میں فرمایا کہ میاں کم بولنا فی نفسہ مقصود نہیں - مقصود یہ ہے کہ فضول باتیں اور مضر باتیں نہ کرے اور اس کی صورت میں مبتدی کے لئے یہ ہے کہ ابتداء میں بہت ہی زیادہ کمی کی جاوے - پھر اس پر کاغذ کی مثال فرمائی کہ جس کاغذ کو چند روز موڑ کر یعنی لپیٹ کر رکھا گیا ہو پھر جب اس کو سیدھا کرنا ہو تو اس کا عکس کرتے ہیں یعنی دوسری کو اسی طرح موڑتے اور لپیٹتے ہیں تاکہ سیدھا ہوجائے عجیب مثال ہے - مثال پر ایک اور ارشاد حضرت مولانا کا یاد آیا - فرمایا کرتے تھے کہ کام اتنا کرنا چاہئے کہ شوق بالکل ختم نہ ہوجاوے تھوڑا سا شوق رہ جائے اس سے پھر کام کرنے کی خواہش قوی ہوجاتی ہے اس پر ایک مثال فرمایا کرتے تھے کہ بچے چکئی کو پھینکتے ہیں تو اس میں کچھ ڈورا باقی رہئے دیتے ہیں تاکہ اس سے پھر آسانی سے واپس آجائے ورنہ دوبارہ چڑھانے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے - سبحان اللہ کیسی عجیب مثال ہے ( ملفوظ 300 ) آنے والوں کو ذریعہ نجات سمجھنا ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں تو ہمیشہ سب کی رعایت رکھتا ہوں مگر میری کوئی رعایت نہیں کرتا اور وہ بھی بے فکری سے اگر مجھ کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس شخص نے میری رعایت کی - ذرا سی بھی کوشش