ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
3 جمادی الاولیٰ سنہ 1351 ھ ھجری مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ ( ملفوظ 219 ) کاموں کی تدابیر بتلانا عملاء کے ذمہ نہیں فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میرا ایک ہندو دوست ہے وہ قرض دار بہت ہے آپ ایسی تدبیر بتلائیں جس سے کا قرض ادا ہو جائے اس پر فرمایا کہ اگر میرے پاس ایسی کوئی چیز ہوتی تو میں ایک مسلمان کو بھی قرض دار نہ رہنے دیتا - ایک یہ لکھا ہے کہ آپ اس کا فورا جواب دیں کہیں اس کو یہ شبہ نہ ہوجاوے کہ مسلمانوں کے مولانا بھی جواب نہیں دیتے - میں نے لکھ دیا ہے کہ جب کوئی ایسا کہے تو تم یہ کہنا کہ وہ مولانا ہی نہیں ویسے ہی مشہور کردیا ہے - پھر فرمایا ان بزرگ نے ان کاموں کے لئے مولانا کو انتخاب کیا - نہ کوئی مسئلہ ہے نہ کوئی اصلاح اعمال کی تدبیر - لوگوں کا عجیب مزاق ہے دین کی تو مطلق فکر ہی نہیں علماء سے اس قسم کی خدمت لینا ایسا ہے جیسے حکیم عبدالمجید صاحب سے جوتہ گا نٹھنے کی تدبیر پوچھنا جو نہایت ہی بدتمیزی اور بد فہمی کی بات ہے جو جس کام کا ہے اس سے وہی کام لینا چاہئے - اس پر نکیر نہیں کہ دعا کی درخواست کی جائے - باقی ان کاموں کی تدابیر سو بیچارے علماء کو کیا معلوم علماء کا کام ہے تدرس و تدریس عظ نصیحت اس سے آگے ان سے امید کرنا محض حماقت پر منبی ہے - ان تحریکات میں بھی لوگوں نے یہی چاہا تھا کہ علماء پیش پیش ہوں جو نہایت ہی بے اصولی بات تھی - علماء سے تو جواز عد جواز معلوم کرنا چاہئے تھا اس سے آگے حدود سے تجاوز تھا اور جن علماء نے عوام کے خیال سے کہ کہیں بد اعتقاد نہ ہو جائیں غیر معتقد نہ ہوجائیں تحریکات میں شرکت کی ان کی بدولت جس قدر مسلمانوں کا نقصان ہوا وہ اظہر من الشمس ہے - خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے مرکز سے آگے بڑھے گی اس کا یہی حشر ہوگا جس کا مشاہدہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کرلیا کہ کس قدر گڑ بڑ مچی اور کس قدر احکام