ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
لوگ ٹوٹے اور غبار بھرے بوریوں پر آکر بیٹھتے تھے اور ان میں جو دین کے لئے آتے ان کی رعایت بھی ہوتی تھی پس یہ حدود تھے اسی رعایت حدود کے تحت میں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بزرگوں کا ارشاد ہے نعم الامیر علی باب الفقیر پس جو امیر فقیر کت دروازہ پر گیا وہ صرف امیر نہیں نعم الامیر ہے اس کے نعم ہونے قدر کرنا چاہئے البتہ متکبر امراء سے بالکل ہی خلط کرنا چاہئے اس میں بہت مفاسد ہیں جن میں بڑا مفسدہ یہ ہے کہ یہ علم دین اور اہل دین کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں میرا ایسے امراء کے ساتھ اس قسم کا خشک برتاؤ کرنا اس کا اصلی سبب یہی ہے کہ ان کے معاملہ کا منشا اور نیت نہایت ہی فاسد ہے ایک مرتبہ نواب صاحب ڈھاکہ نے علماء دیوبند کا ایک وفد طلب کیا اور مجھ کو بھی خط لکھا میں نے تو عذر کردیا اور وفد تیار ہوگیا اور وفد کے اہل علم احباب خاص کے اصرار پر میں نے بھی تیار کرلی مگر میں نے یہ شرط کرلی کہ میں کرایہ نہ نواب صاحب سے لوں گا نہ مدرسہ سے خود اپنے کرایہ سے جاوں گا دوسرے یہ کہ چونکہ نواب صاحب سے عذر کرچکا ہوں اس لئے ان کے یہاں نہ ٹھیروں گا کسی مؤذن یا امام مسجد کے یہاں ٹھیروں گا - اگر نواب صاحب خاص طور پر دعوت کریں گے تو اس وقت جیسا مناسب ہوگا جب کلکتہ پہنچے تو جو صاحب نواب صاحب کی طرف سے منتظم تھے ان سے ایک گفتگو میں بے لطفی ہوگئی اس وقت دو شرائط کام آئیں چنانچہ میں اپنے کرایہ سے کلتہ ہی سے واپس ہوگیا اور الہ آباد ہوتا ہوا گھر آگیا تو ان منتظم صاحب نے جو بے اصول گفتگو کی منشا ان کا وہی فساد خیال تھا اس لئے اسلم یہی ہے کہ ان متکبر امراء سے بالکل ہی آزاد اور مستغنی رہنا چاہئے محصوص اس وجہ سے بھی کہ اہل علم کو تو ان امراء سے کوئی نفع ہوتا نہیں اور غربا ء کو جو نفع اہل علم سے ہوسکتا ہے وہ آیا گیا ہوجاتا ہے کیونکہ ایسے علماء سے عام غرباء کو بدگمانی ہوجاتی ہے اس لئے ان متکبروں کے ساتھ آن بان ہی سے رہنا چاہئے میں جب حیدر آباد دکن گیا تھا ایک دوست نے مدعو کیا تھا دیوبند میں بعض احباب اہل علم سے میں نے مشورہ کیا تھا کہ کوئی ایسی