ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
وہ باغی ہے اس پر گونتمنٹ اس کو دوام حبس یا بھانسی کا حکم دے تو کیا عقلاء اس کو ظلم کہیں گے یا عقلاء اس کی تصویب کریں گے - کہنے لگا تصویب کرینگے - میں نے کہا جواب ہوگیا - دیکھئے یہ سب مقدمات آپ کے ذہم میں تھے - باوجود اس کے پھر سوال کرنا اس کا منشا صرف یہ ہوسکتا ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی زبان سے آپ کو کافر کہوں - کہا واقعی یہی منشا تھا اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی ابان سے لفظ کافر سنئے سے بھی کانوں کی لذت حاصل ہوتی ہے - میں نے کہا کہ یہ آپ کی خوبی کی بات ہے مگر میری اسلامی تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتی کہ میں بلا ضرورت آپ کو کافر کہوں اور ضرورت کی قید میں نے اس وجہ سے لگائی کہ بضرورت تو کافر کہتے ہی ہیں - بیحد خوش ہوا اور میرا وطن پوچھا اور معلوم ہونے پر کہا کہ میں لیکچر کے لئے وہاں جایا کرتا ہوں - آب کی بار آنا ہو ا تو آپ کے پاس ضرور آوں گا مگر پھر آیا نہیں - اس قسم کے جوابوں سے عوام سمجھ بھی جاتے نفع بھی زیادہ ہوتا اور وقت بھی زیادہ صرف نہیں ہوتا مگر علماء نے یہ طرز چھوڑ دیا - جواب ہمیشہ اصولی ہونا چاہئے مثلا ایک آریہ نے میرے ایک عزیز سب اسنپکٹر کے واسطہ سے ایک اعتراض کیا تقدیر کے مسئلہ میں کہ اس میں تو جبر لازم آتا ہے اور یہ مسئلہ ہے عقلی اہل اسلام کے ذمہ ان اعتراضوں کا جواب ہے جو عقول ہے میں اس کا جواب یہ دیا کہ یہ مسئلہ اگر اہل سلام کا نقلی ہوتا تو اواقعی اس کے ذمہ دار صرف اہل سلام ہوتے مگر یہ مسئلہ عقلی اور مقدمات عقلیہ سے تم کو بھی اس کا قائم ہونا پڑے گا تو اس صورت میں یہ مسئلہ تم میں اور ہم مشترک ہوگیا تو دونوں سے سوال ہوگا - سو اگر تمہاری سمجھ میں آجاوے تم ہمیں بتلادو اور ہماری سمجھ میں آجاوے تو ہم تم کو بتلادیں اور اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے دونوں صبر کر کے بیٹھ جاؤ اور اس کی حل کی فکر میں رہو - تم کو اہل اسلام سے سوال کرنے کا کیا حق ہے جیسے بالکل ایسی مثال ہے جیسے کوئی آریہ یہ اعتراض کرے ایک آنکھ کافی تھی پھر وہ کیوں ہیں - ہم کہیں گے تم ہی بتلادو - کیونکہ یہ تو تم کو بھی تسلیم ہے کہ دونوں آنکھیں