خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میرے عاشق بنتے ہو۔ انسانوں میں بھی میرے ایسے ایسے عاشق ہیں کہ میری محبت میں مال ودولت کو، بیوی بچوں کو قربان کرسکتے ہیں۔تم میں تو قربانی کا تقاضہ ہی نہیں ہو سکتا۔ تم کیا دعویٰ میری محبت کا کرتے ہو۔ تمہارے پاس نہ بیوی ہے نہ بچے ہیں۔ میرے صدیق کو دیکھو کہ بیوی بھی ہے، بچے بھی ہیں لیکن میری محبت میں کسی کی پروا نہ کی۔ صاحب نصاب تھے مستحقِ زکوٰۃ ہوگئے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لا ئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو سلام بھیجا ہے اور پو چھا ہے کیا آپ اپنی اس حالت سے راضی ہیں؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس وقت وجد آگیا اور کہنے لگے اَنَا عَنْ رَّبِّیْ رَاضٍ، اَ نَا عَنْ رَّبِّیْ رَاضٍ؎ ( میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں)اس لیے مولوی اور محدث ہونا، عابد و زاہد ہونا کافی نہیں، قلب میں صدیقیت پیدا کرو، یقین پیدا کرو، اس یقین کی بدولت قیامت تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان ایک طرف اور ساری امّت کا ایمان ایک طرف۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایمان کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ ورسول پر جان قربان کرنی چاہیے۔ محبت خود راستہ دکھاتی ہے ؎ از محبت شاه بنده می شود محبت سے بادشاہ محبوب کا غلام بن جاتا ہے ؎ از محبت مسّہا زریں شود اور محبت سے تانبا سونا ہوجاتا ہے۔ اسی لیےحضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ و رسول پر جان قربان کرنا چاہیے۔ زیادہ پڑھنے پڑھانے سے کیا ہوتا ہے ۔ان کی نافرمانیوں سے بچنا چاہیے۔ مگر سب ان کے کرم پر موقوف ہے، جس کووہ چاہتے ہیں تو شیخ کی ایک نظر کافی ہو جاتی ہے، ایک توجہ میں کام بن جاتا ہے، ایک مجلس کافی ہوتی ہےاور جس کو وہ نہ چاہیں تو کوئی مرشد اس کو ہدایت نہیں دے سکتا اس لیے ------------------------------