خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تشریف لے گئے اور یہ خطبہ دیا ۔ خطبہ کیا تھا اصل میں اپنے کو سنانا تھا کہ میں غفلت میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ فرمایا اے نوجوانو! جن کو اپنی جوانیوں پر ناز تھا کیا ہوئی وہ جوانی؟ تمہارا وہ حُسن کہاں چلا گیا؟اے پہلوانو! تمہاری پہلوانی اور طاقتیں کیا ہوگئیں؟ جن پر تم ناز کیا کرتے تھے، معاف کرنا جانتے ہی نہ تھے۔ اے بادشاہو! تمہارے وہ قلعے کیا ہوئے؟ دیکھو! ایک وہ وقت تھا کہ ایوب خان کے نام سے پہلے صدر مملکت فیلڈ مارشل اور نہ جانے کیا کیا لکھا جاتا تھا، القاب ایک سطر میں آتے تھے۔ آج خالی مسٹر ایوب خان ہوگئے۔ اس لیے اگر دنیا کی فانی چیزوں سے محبت کی تو کیا کی، وقت ضایع کیا۔ دل میں اللہ تعالیٰ نے جو محبت دی ہے اگر اس کا رخ اللہ کی طرف ہو گیا تو پاک ہوجائے گی۔ اور اگر دنیا کی طرف ہو گیا تو ناپاک ہو جائے گی۔ ان آنکھوں سے اگر ٹیڈیوں کو دیکھا تو تم نے یہ آنکھیں ناپاک کر لیں، اگر کسی اللہ والے کو دیکھا تو آنکھیں پاک ہوگئیں۔ ان آنکھوں سے ٹیڈیوں کو نہ دیکھو اللہ والے کو دیکھو۔ جان کو سکون صرف اللہ والے کے پاس بیٹھنے میں ملے، محبت ایسی ہونی چاہیے۔ اسی لیے حضرت صدیق اکبر کو دنیا کی کوئی نعمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے سے زیادہ محبوب نہیں تھی۔اسی لیے عرض کیاوَالْجُلُوْسُ بَیْنَ یَدَیْکَ ہمیشہ آپ کے پاس بیٹھا رہوں اس سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی نعمت نہیں۔ اپنی تیسری پسند حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ عرض کی کہ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلَیْکَ؎آپ پر اپنے مال کو قربان کرتا رہوں اور خرچ کر کے بھی دکھایا ایسا خرچ کیا کہ ان کے مقابلے میں کون خرچ کرسکتا ہے۔ اپنے پاس کوئی چیز باقی نہ چھوڑی، گھر میں جھاڑو دے دی،پہلے جھاڑو دی پھر جھاڑو کو بھی لے آئے، سوئی دھاگا تک نہ چھوڑا۔ بٹن بھی توڑ کر چندے میں داخل کر دیا اور کمبل میں کانٹا لگا لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا؟ کہا کہ اللہ و رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ معلوم ہے پھر کیا انعام ملا، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا کہ تم بھی اپنے کمبل میں کانٹا لگا کر اسی لباس میں جاؤ جس میں ہمارا صدیق ہے۔ تم ------------------------------