خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کامل اسے دنیا کے کاموں کے لیے مجبور نہیں کر ے گا،کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ایسے طالب کو اﷲ تعالیٰ نے دین کے کاموں کے لیے پیدا کیا ہے، اس کی روزی کا انتظام وہی فرمائے گا۔ ارشاد فرمایا کہ آپ کی بے کاری کی ایسی قدر کسی نے نہ کی ہوگی، جس کے دل میں صرف اﷲ ہو وہی کر سکتا ہے ورنہ بڑے بڑے دینداروں کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے ۔ پھر وہ ایسے جملے کہہ دیتے ہیں جس سے دل ٹوٹ جاتا ہے کہ دنیا میں لگو،یا فاسقوں کی تعریف کر دی۔ یہ دلیل ہے کہ یا تو ان کے دین کا فہم صحیح نہیں یا ان کیاﷲ کے ساتھ محبت میں نقص ہے۔ اگر کہنا بھی ہو تو اس کا عنوان دوسرا ہوتا ہے، جیسے میں نے آپ سے اس دن کہا تھا کہ آپ کہہ دیجیے کہ میں کسی کے ٹکڑوں پر نہیں رہنا چاہتا مجھے اﷲ کی رحمت سے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں کرے گا۔ دنیا کی تو فکر کر نی ہی نہ چاہیے ،دنیا فکر وں میں رکھنے کی چیز نہیں۔جسم سے روزی تلاش کرو، دل اﷲ کے لیے ہے اﷲکے ساتھ رہے دنیا دل میں نہ آئے۔اﷲ والاہاتھ پیر سے محنت کرتا ہے، اہلِ دنیا دل سے محنت کر تے ہیں ان کا دل ان کاموں میں لگتا ہے۔ اﷲ والے کے برابر یہ دنیادار کیا محنت کر یں گے۔وہ روزی حلال کر نے کے لیے دفتر میں آٹھ گھنٹے خوب محنت سے کام کر تا ہے لیکن اس کے بعد جب وہاں سے اٹھتا ہے تو دفتر کو دل میں نہیں لاتا، وہیں جھاڑ آئے گا اور اپنے اﷲ سے مشغول ہو جائے گا۔ (مندرجہ بالا ملفوظ حضرتِ والا نے احقر کی دلجوئی کے لیے ارشاد فرمایا کیوں کہ احقر جب حضرتِ والا کی خدمت میں پہلی دفعہ ۱۹۶۹ ء میں حاضر ہو اتو اس وقت کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ۱۹۵۹ء میں علی گڑھ سے بی-کام (B.Com) کیا تھا۔اس کے بعد سے ہندوستان میں کوئی نوکری نہ ملی،نہ ہی احقر کا دل کسی کام کے کر نے کو چاہتا تھا۔ بہت سے اہلِ دین کے پاس بھی جاتا تھا تو جب انہیں معلوم ہوتا کہ میں کوئی کام نہیں کر تا تو وہ نصیحت کر تے تھے کہ کوئی کام کرنا چاہیے جس سے احقر کو اور زیادہ احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا تھا کہ اہلِ دین کی نظروں میں بھی میں قابلِ التفات نہیں اور اہلِ دنیا تو حقیر سمجھتے ہی تھے۔ جب حضرت کی خدمت میں حاضری ہو ئی تو حضرتِ والا سے انتہائی مناسبت اور محبت اوّل نظر ہی میں ہو گئی، اس لیے میں سمجھتا تھا کہ حضرتِ والا کو جب معلوم ہو گا کہ یہ کچھ نہیں کر تا تو حضرتِ والا کو تکلیف ہو گی ۔شروع حاضری کے