خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اب جو شخص آگ کی سمت میں قدم بڑھائے گا وہ اگر چہ ابھی آگ سے پانچ میل دور ہے لیکن آگ کا دھواں اس کی ناک میں پہنچے گا، ادھر کی گرم ہوائیں ابھی سے اس کی طبیعت کو مکدر کر دیں گی۔ اور جو شخص نا فرمانیوں کا راستہ چھوڑ کر اﷲ کے راستے میں قدم رکھتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں دودھ اور شہد کی، رنگ برنگے خوشبو دار پھول کھلے ہوئے ہوں تو جو شخص اس باغ کے راستے میں قدم رکھے گا وہ اگر چہ ابھی اس باغ سے پانچ میل دور ہے لیکن باغ سے جو نسیم بہار آئے گی خوشبو ئے قربِ یار لائے گی،اس کا ایک جھونکا مشام جاں کو معطر کر دے گا ۔ آگ کی طرف سے رخ پھیر لیا ،ہوا بدل گئی،اگر چہ ابھی وہ باغ سے دور ہے لیکن ہوا کے جھونکے خوشبوئے قرب ِیار لا رہے ہیں، پیام دوست دے رہے ہیں، نوید جانِ جاناں مل رہی ہے بس اسی لمحہ سے اس کی جان کو سکون ملنا شروع ہو گیا۔ اب جوں جوں وہ آگے بڑھتا رہے گا خوشبوئے دوست بھی بڑھتی رہے گی،قرب میں روز بروز ترقی ہو تی رہے گی ،باغ دوست کی نسیم بہار روز بروز زیادہ معطر ہو تی جائے گی،کیوں کہ یہ قریب آتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایک روز یہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے گا قرب کی انتہا نصیب ہو جائے گی۔ اس وقت اس کی جان کا رابطہ صاحبِ باغِ قرب سے ہو جائے گا اسی کا نام سلوک ہے سلوک کے معنیٰ ہیں اﷲ کا راستہ طے کرنا جس نے اس راستے میں شروع شروع قدم رکھا ہے وہ مبتدی ہے اور جس نے آدھا راستہ طے کر لیا وہ متوسط ہے اور جسے نسبت نصیب ہو گئی یعنی پورا راستہ طے کر لیا وہ منتہی کہلاتا ہے لیکن یہ راستہ منتہی کے لیے بھی ٹھہرنے کا نہیں ہے آخری دم تک ترقی کر تا رہے ہر مقام کو چھوڑ کر آگے بڑھتا رہے اﷲ کے قرب کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ قرب کے کسی مقام پر صبر نہ آئے، ولایت کے کسی درجے پر اطمینان نہ ہو، کیوں کہ ہر مقام کے آگے اس سے ایک اعلیٰ مقام موجود ہے۔ آخر دم تک تراش خراش میں لگا رہے ؎ اندریں رہ می تراش و می خراش تا دمِ آخر دمے فارغ مباش یہ راستہ ولایت کا ہے،اﷲ تعالیٰ کے ساتھ صبر کر نے کا نہیں ہے۔ جس نے دوستی کا دعویٰ کر دیا ہو کیا اسے اس پر صبر آسکتا ہے کہ میری دوستی مکمل ہو گئی اور میں نے