خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میں یہ ایسے رہا جیسے مسافر رہا کر تے ہیں وہاں کے عیش و عشرت ، شراب و کباب میں مبتلا نہ ہوا بلکہ اپنے مال کو کراچی کے لیے بچاتا رہا۔ یہ دونوں شخص جب کراچی آتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ مفلس کون ہے۔ برطانیہ میں اسے بے وقوف کہتے تھے کہ نہ سینما دیکھتا ہے، نہ شرابیں پیتا ہے، نہ عیش اڑاتا ہے لیکن وطن آکر معلوم ہو گا کہ بے وقوف کون تھا یہ دوسرا شخص اسے دکھا دکھا کر پاکولا پیے گا اور اُس کے پاس کچھ نہ ہو گا ۔ پس وہ لوگ جو دنیا میں آکر یہ بھول گئے کہ آخرت کو واپس جانا ہے اور یہاں کے عیش و عشرت میں مشغول ہو گئے، اپنے جان و مال کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہ کیا گویا انہوں نے اپنا سرمایہ اپنے اصلی وطن منتقل نہ کرایا،کیوں کہ آخرت کا سکہ اعمال حسنہ ہیں، جس دن ان کا ویزا ختم ہو گا اس دن انہیں اپنی مفلسی کا احساس ہو گا، خالی ہاتھ جا رہے ہوں گے، حتیٰ کہ جسم کا لباس بھی اتر جائے گا، بنگلہ اور کاریں رہ جائیں گی، اس دن حسرت کریں گے کہ کاش! اﷲ کی دی ہوئی قوتوں کو اﷲ کی راہ میں خرچ کر کے دنیا کا سکہ آخرت کے سکے میں تبدیل کرا لیا ہو تا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔اور وہ شخص جو دنیا میں رہ کر دنیا سے کنارہ کش رہا یہاں کا عیش و آرام شراب و کباب اسے اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے بلکہ اسے دھن لگی رہی کہ اصل آرام تو آخرت کا آرام ہے، اﷲ کی دی ہوئی قوتوں کو، اﷲ کے دیے ہوئے مال کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے اپنے سرمایہ کو اپنے اصلی وطن میں منتقل کرا تا رہا، جس دن اس کا ویزا ختم ہوگا اس دن اس کو اپنی امارت کا احساس ہو گا اور دنیا کے مسافر خانے کی تمام تکلیفوں کو بھول جائے گا۔ بلکہ دنیا کی زندگی میں بھی اصل آرام، اصل سکونِ قلب اسی کو حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ جانتا ہے کہ میں جو کچھ عمل کر رہا ہوں اﷲ تعالیٰ اسے ضایع نہیں کریں گے۔اطاعت و فرماں برداری اس کو مطمئن رکھتی ہے اور اﷲ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں بھی اس کے دوست ہو جاتے ہیں: نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؎ ------------------------------