خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تھے،اس نے کہا:حضور!خطا ہوگئی معاف کردیجیے، فرمایا تم نے ایک درجن خطائیں کی ہیں،میں کتنا بھگتوں؟ یعنی کتنا برداشت کروں تو تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اس وقت پاس بیٹھے ہوئے تھے جو شیخ الحدیث مولانازکریا رحمۃ اﷲ علیہ کے سگے چچا بھی تھے، انہوں نے شیخ الحدیث کے کان میں فرمایا کہ قیامت کے دن جتنا اپنا بھگتوانا ہو، جتنی اپنی خطاؤں کی معافی کرانی ہو اتنا یہاں بھگت لواور اﷲ کے بندوں کو معاف کردو۔ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے بھانجے حضرت مسطح رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ سے ناراض ہوگئے اور قسم اُٹھائی کہ اب میں ان کو کبھی کچھ نہیں دوں گا۔ حضرت مسطح بدری صحابی تھے، بدری صحابہ اﷲ کے مقبولین میں سے ہیں اور اﷲ ایک دفعہ جس کو قبول کرتا ہے پھر اس کو کبھی مردود نہیں کرتا، ہم لو گ تو اس لیے مردود کردیتے ہیں کہ ہم کو مستقبل میں کسی کی وفاداری کا علم نہیں ہوتا لیکن اﷲ تعالیٰ اُسی کو مقبول بناتے ہیں جو علم الٰہی میں ہمیشہ مقبول ہوتا ہے، ماضی، حال، مستقبل اﷲ تعالیٰ کو سب کا علم ہے چناں چہ جس کو ایک مرتبہ قبول کر لیتے ہیں پھر کبھی اس کو مردود نہیں فرماتے لہٰذا اﷲتعالیٰ نے حضرت ابو بکر سے حضرت مسطح کے لیے سفارش نازل فرمائی: اَ لَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ؎ اے ابو بکر صدیق! کیا تم محبوب نہیں رکھتے کہ میرے اس بدری صحابی کو جس نے بدر میں جنگ لڑی تھی اور میں نے اس کو اپنا مقبول بنا لیا تھا، جس سے بے شک غلطی ہو گئی لیکن میں اس کو معاف کرتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اﷲ تم کو بخش دے تو تم میرے مسطح کو معاف کردو۔ یہ تفسیر جو میں پیش کر رہا ہوں روح المعانی میں اس آیت کے شانِ نزول میں موجود ہے۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا کہ اے اﷲ! میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ آپ مجھے قیامت کے دن بخش دیں، میں آپ کے اس بندے کو معاف کرتا ہوں بلکہ اس پر پہلے سے بھی زیادہ احسان کروں گا۔ ------------------------------