خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں جو مال گھسیٹ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ اچھا تمہارے جانے کے بعد ہم چندہ کر کے بھیجیں گے۔ میں نے کہا جانے کے بعد بھی چندہ مت کرنا،اس لیے کہ جانے کے بعد اگر تم کہو گے کہ فلانے جو آئے تھے ان کے مدرسے کے لیے چندہ دوتو پھرلوگ یہسمجھیں گے کہ اس مرغے نے اپنی ککڑوں کوں سنائی مگر مرغیاں چھوڑ گیا جو کٹ کٹ کٹاک کر رہی ہیں۔ اور ہر طرف کٹ کٹ کٹاک کر کے اسٹاک جمع کر رہی ہیں۔ آج ان کے دلوں میں میری کتنی عزت ہے۔ چندہ کی طلب سے سب خاک میں مل جائے گی اور پھر وہ مجھ سے دین کی بات نہ سنیں گے میں اپنے دردِ دل کو دنیا کے عوض فروخت نہیں کرسکتا۔ مولانا نے کہا کہ آپ نے تو کمال کر دیا۔ میں نے کہا یہ میرا کمال نہیں یہ شاہ عبدالغنی کاکمال ہے۔ کیا کہیں! اُنہوں نے اپنی آہ و فغاں کے سوا کبھی کسی سے اس قسم کی گفتگو نہیں کی۔ لیکن اللہ نے ا ن کی عزت رکھی۔ اللہ کی رحمت سے مدرسہ چلتا رہا اگر چہ غریب تھا۔ مگر اس غریبی سے جو لوگ پیدا ہوئے اور جو نور عطا ہو ا کیاکہنے۔ اب آج کل اسی مدرسہ بیت العلوم میں ناشتے بہت مل رہے ہیں مگر مجھے میرے مدرسے میں بے ناشتہ رکھا،لیکن میں اسی میں خوش تھا۔ میرا ناشتہ مناجاتِ مقبول، نماز اشرا ق اور میرے شیخ کا بتایا ہواایک ہزار مرتبہ اللہ اللہ تھااور کوئی ایک قطرہ چائے نہیں دیتا تھا، باسی روٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پورے مدرسے میں مجھے جو تجلیات و انوارات حضرت شاہ عبدالغنی کے نظر آتے تھے وہ کسی کو دکھائی نہ دیتے تھے۔ مولانا سجاد صاحب نے تقریر میں وہاں کہایہ طالب علم ہے جس نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ لیکن میں آج اس تربیت پر اوران مجاہدات پر شکرادا کر تا ہوں کہ اے میرے پالنے والے اللہ !تیری ادائے محبوبیت پر اختر فدا ہے۔ جوانی میں مال و دولت آجائے اور شہوات اور نفسانیت کی طغیانی ہو تو کیا ہو گا۔ تنگی میں رکھنا بھی اﷲ تعالیٰ کا فضل تھا جس سے میری جوانی محفوظ رہی، اس وقت تنگی کی وجہ سے ہم پیر چنگی بن گئے۔ (حضرتِ والا کی طبعی ظرافت کی وجہ سے اس طرح کے شگفتہ جملے بے اختیار نکل جاتے ہیں۔ مرتب)