خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
دوسرے حصے میں چھت نہیں تھی،تہجد عموماً اسی حصہ میں پڑھتے تھے پوری زندگی اس میں گزار دی اوروہیں سے پاکستان ہجرت کی۔ مگر کبھی کسی سیٹھ سے نہیں کہا کہ یہ چھت خالی ہے اس پر چھت ڈالنا ہے۔ اپنی زندگی میں میں نے حضرت کو دیکھا بڑے بڑے نوابوں نے بلایا ریاست رام پور کے نواب ہوں یا نواب چھتاری ہوں، حضرتِ والا سب سے مستغنی رہے۔ میں نے خود دیکھا کہ حضرت کے رعب کی وجہ سے نواب چھتاری کے ہونٹوں پر لرزش تھی۔ زندگی اسی درویشی میں گزار دی، بڑے بڑے مال دار بھی آتے تھے، مگر واہ رے میرے شیخ عجیب وغریب حالات تھے یہاں تک کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کہنا پڑاکہ اے پھولپور والو! مولانا کے مدرسے کو چندہ دو، ان کانام عبدالغنی ہے۔ یہ کسی سے نہیں کہیں گے کہ تم چندہ لاؤ۔ لیکن یاد رکھو اگر تم لوگوں نے چندہ نہ دیا تو تمہاری گردن قیامت کے دن پکڑی جائے گی۔ یہ بات شیخ نے مجھے سنائی اور میں آپ کو بتارہا ہوں۔ جو بات میری زبان سے سنو گے چا ہے کوئی کتنا ہی بڑا مقرر ہو لیکن چوں کہ وہ ساتھ نہیں رہا لہٰذا روایت در روایت میں روایت کی صحت اور معانی کا صحیح تحفظ مشکل ہو تا ہے اور میں چوں کہ بڑی للچائی اور بہت ہی حرص اور طمع کے ساتھ حضرت کی بات سنّتا تھا میری آنکھیں بھی شیخ پر حریص تھیں اور کان بھی حریص تھے کہ کوئی لفظ نہ رہ جائے، لہٰذا میرے شیخ نے مجھے سنایاکہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سرائے میر تشریف لائے تھے اور فرمایاکہ اس مدرسے کا نام بیت العلوم رکھتا ہوں، اللہ اس کو دارالعلوم بنادے اور یہ مصرع پڑھا ؎ ہر کجا پستی ست آب آں جا رود جہاں پستی ہوتی ہے پانی اسی جگہ آ جاتا ہے۔ اس لیے جو تواضع سے رہتا ہے اسی کو اللہ ملتا ہے، اور جو اکڑ کر رہتا ہے، اہل اللہ سے مستغنی رہتا ہے اس کو اللہ نہیں ملتا اور حضرت حکیم الامّت نے پھولپور کے لیے فرمایا کہ پھول کے لفظ کی رعایت سے پھولپور کے مدرسہ کا نام روضۃ العلوم رکھتا ہوں پھولپور کی مناسبت سے۔ پھر عوام سے فرمایا کہ بھئی! عبدالغنی ہے ان کا نام، ان سے امید مت رکھنا کہ یہ تم سے مانگیں گے۔ واقعی میں نے ساری زندگی دیکھا کہ کبھی کسی سیٹھ سے سوائے دردِ دل اور اﷲ کی محبت کی باتوں