خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کا درس دے رہے تھے اس کی بے ادبی دیکھو کہ شاہ صاحب کی تقریر کے درمیان فوراً بول پڑا کہ آپ کو نواب صاحب نے بلایا ہے اور کہا ہے کہ اگر آپ تشریف لائے تو نواب صاحب آپ کو ایک لاکھ اشرفی نذرانہ دیں گے۔ اب مولوی سمجھا کہ جیسا میں ہوںویسے ہی ابھی شاہ صاحب کے منہ سے بھی پانی بہنے لگے گا۔ لیکن شاہ صاحب نے کیا فرمایا اومولوی صاحب! سن لاکھ روپے پر ڈالو خاک اور سنو میری بات، اور پھر یہ شعر پڑھا ؎ جو دل پر ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں وہ مولوی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کو لوگوں نے پہچانا نہیں ؎ اشقیا را دیدۂ بینا نبود نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود بدبختوں کے دل کی آنکھیں اندھی تھیں، ان کو اچھے اور بُرے ایک سے نظر آئے۔ میرا بھی ایک اردو شعر ہے ؎ لب ہیں خنداں جگر میں ترا درد و غم تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم یہ دردِ دل معمولی نعمت ہے؟اگر ایک کروڑ کی سلطنت بھی شاہ صاحب کو نذر کرتاتوان کے دردِ دل کی قیمت ادا نہ کر سکتا۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد اللہ والوں کی جوتیوں کے صدقے میں ملتا ہے، پھر مولوی مولوی ہوتا ہے مولیٰ والا، پھر اسے خود بھی احسا س ہوتا ہے کہ میں رئیس الکائنات ہوں۔ اﷲ والا حافظ قرآن ہے، عالم ہے، گھر میں چٹنی روٹی ہے، کپڑوں پر پیوند لگے ہیں مگر اس کا دل مست ہوتا ہے کہ میں رئیس الکائنات ہوں کہ مولائے کائنا ت میرے دل میں ہے۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ تم شاہ صاحب بنے ہوئے ہو، شاہوں کے پاس تو خزانہ ہوتا ہے تمہارے پاس کتنا سونا ہے؟ اس نے کہا ؎ بخانہ زر نمی دارم فقیرم ولے دارم خدائے زر امیرم