خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہوا کہ امیر المؤمنین کے لیے مشیروں کے مشورہ پر عمل کرنا واجب نہیں، جب وہ عزم کر لے تو اﷲ کے بھروسے پر اپنے عزم پرعمل کرے، خواہ مشیروں کے مشوروں کے خلاف ہو، کیوں کہ بعض ایسے نادان لوگ ہوں گے کہ ان کے مشورہ پر اگر فتح ہوئی تو عجب میں مبتلا ہوں گے کہ ہمارے مشورہ کی وجہ سے فتح ہوئی اور اگر شکست ہوئی تو مذاق اُڑائیں گے کہ ہمارے مشورے پر عمل نہیں کیا اس لیے شکست ہوئی، حالاں کہ فتح وشکست اﷲ کی طرف سے ہے اور امیر المؤمنین جو فیصلہ کرے وہ اﷲ کے یہاں حق پر ہے۔ ورنہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اکیلے جہاد کے لیے نہ نکلتے جبکہ پوری قوم ساتھ نہیں تھی اور سب لوگ جہاد کے لیے منع کر رہے تھے، اس وقت آپ نے فرمایا کہ غار ثور میں جب یہ آیت نازل ہوئیلَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا؎ تو اس وقت اے صحابہ! تم میں سے کوئی وہاں نہیں تھا، صرف میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، لہٰذا میرے ساتھ خدا ہے، میں تنہا لڑکر جان دے دوں گا، جب اِنَّ اللہَ مَعَنَا کی نصِ قطعی سے اﷲ میرے ساتھ ہے تو مجھے کسی کی پروا نہیں، سارے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اے صدیق اکبر! ہم پر حق واضح ہوگیا اور حق کو ہم نے تسلیم کرلیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان یہ ہے کہ جب حق واضح ہوگیا تو اپنی رائے کو فنا کر دیا اور حضرت صدیق اکبر کے ساتھ ہوگئے کہ جب امیرالمؤمنین اللہ کے راستے میں مشورہ نہ لے تو سمجھ لو کہ وہ بات اللہ کی طرف سے ہے، ایسے وقت میں امیرالمؤمنین کا حکم خدا کا حکم ہے، اس کے خلاف کرنا اللہ کی نافرمانی ہوگی، لہٰذا ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تنہا تلوار لے کر نکلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا کہ اے صدیق ٹھہرئیے! ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ سب نے کہا کہ ہم تنہا امیرالمؤمنین کو نہیں چھوڑ سکتے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہیں۔ واقعی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آیت لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا پڑھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو محسوس ہوا کہ گویا وہ آیت ابھی اُتری ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہاں مَعَنَاجمع کا صیغہ نازل فرمایا،کیوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ------------------------------