خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اگر آپ گھوڑے پر جارہے ہیں اور دوہزار گز گہری کھائی آگئی اور نیچے ہری ہری گھاس ہے، سبزہ اُگا ہوا ہے تو اگر آپ نے نہ روکا تو گھوڑا گھاس کے لالچ میں کھائی میں کود کر جان دے دے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آپ روکتے ہیں تو چوں کہ گھوڑا بھوکا ہے اور ہری گھاس کا عاشق ہے، لگام کھینچنے کے باوجود بے تابی سے کھائی میں کودنے کی کوشش کرے گا، سوار کو چاہیے کہ اس وقت پوری طاقت سے لگام کھینچے چاہے گھوڑے کا گال پھٹ جائے، اگر سوار پوری طاقت سے اسے روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو گھوڑا بھی مرے گا اور سوار بھی مرے گا، لہٰذا ہمت سے کام لو اور لگام پوری قوت سے کھینچو، زیادہ سے زیادہ گھوڑے کاگال پھٹ جائے گا، اس کی اصلاح آسان ہے، مویشی کے ڈاکٹر کے یہاں لے جاؤ، وہ مرہم پٹی کردے گا، انجکشن وغیرہ لگادے گا لیکن اگر تم نے اس کے گالوں کی فکر کی تو تمہارا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اﷲ کے قہر اور عذاب کے گڑھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں، لہٰذا جسم کی فکر نہ کرو کہ گناہ چھوڑنے سے اس کو غم پہنچے گا بلکہ ان شاء اﷲ تعالیٰ اپنے نام کی برکت سے اﷲ تعالیٰ جسم کو صحت مند کردیں گے۔ تو یہ مثال کیسی ہے! اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے گا کہ گھوڑے کو گھاس کھانے کے لیے کھائی میں کود جانے دو، عقل مند سوار گھوڑے کو پوری طاقت سے روکے گا۔ بس گناہ سے بچنے میں بھی دانت پیس کے پوری طاقت سے ارادہ کرلو کہ گناہ نہیں کرناہے ؎ نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے کہ جن کے دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے اور پھر یہ شعر پڑھیں ؎ جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا