خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اس لیے ہمارے بزرگوں نے کچھ اصول بتائے ہیں کہ جو لوگ سفر پر ساتھ چلیں کسی کا ہدیہ قبول نہ کریں جب تک اپنے دینی مربی سے اجازت نہ لے لیں۔ اگر کوئی براہِ راست دیتا ہے تو ہرگز قبول نہ کریں کہ ہم بغیر امیر کی اجازت کے نہیں لے سکتے اور جہاں تک ہو سکے مارکیٹ مت جاؤ۔ پاکستان جہاں سے ہم آئے ہیں کوئی ایسی چیز نہیں جو وہاں نہ ملتی ہو،ہرچیز وہاں ملتی ہے۔ بال بچوں کی محبت میں دین کی عظمت کو نقصان مت پہنچاؤ۔ مال و اولاد قبر میں کچھ کام نہیں آئیں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پیٹ پر پتھر باندھ کر زندگی گزار لی اور ہم کو اللہ نے کیا کچھ نہیں دیا؟ وجاہت دی، پہننے کو کپڑے دیے، خوب اچھا کھانے کو دیا پھر کیا ضرورت ہے کہ دوسروں سے لے کر اپنی عزت کو خاک میں ملاؤ۔ جتنے ڈالر جیب میں ہوں اس کے لحاظ سے سودا خریدو۔ مارکیٹ میں یہ بھی ظاہر مت کرو کہ پیسے کم پڑ گئے کیوں کہ یہ بھی ایک قسم کا سوال ہے کیوں کہ میزبان دیکھتا ہے کہ ان کو کوئی چیز پسند تھی، پیسوں کی کمی سے نہیں لے رہے ہیں تو وہ مجبوراً کہہ دیتا ہے کہ آپ خرید لیں پیسوں کی فکر نہ کریں۔ ہم اپنی عزت نفس کے خلاف کیوں رحم کی بھیک مانگیں۔ ہم ایسا سودا ہی نہیں لیتے جس کی استطاعت نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دیکھیں کسی قسم کی صورتِ سوال ہو یا حقیقت ِ سوال ارشاد فرمایا کہ اللہ اس میں برکت نہ دے۔ اللہ کے نبی کی بددعا والی چیز کو مت قبول کرو۔ آپ بتائیے کہ جس کو نبی کی بددعا لگ جائے تو اس کا کیا حال ہوگا! ایسے عیش پر لعنت بھیجو۔کتنی ہی اچھی چیز ہو دوسروں سے اشارتاًیا صراحتًا مت مانگو، جو اللہ نے ہم کو دیا ہے اس کی حدود میں رہو۔ بس طریق کی عظمت یہی ہے۔ ان شاء اللہ پھر اس کا نور دیکھو گے۔ عزت نفس اور عظمتِ دین اسی میں ہے کہ ان اصولوں کو ہر وقت سامنے رکھو، ورنہ اگر آپ نے بغیر اجازت کسی کا ہدیہ قبول کر لیا تو ہدیہ دینے والے کے دل میں بھی آپ کی عزت نہ رہے گی۔اس لیے میں کہتاہوں اللہ کے نام پر جان و دل، آبرو فدا کر دو، دنیا کو قریب نہ آنے دو۔ اس سے اللہ کی عظمت، اللہ کے دین کی عظمت اور ہمارے بزرگوں کی عظمت قائم رہتی ہے۔ مولانا حسین بھیات صاحب میرے بچپن کے پالے ہوئے ہیں۔ جب بالغ