خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اگر آپ کو اللہ نے بہت دولت دی ہے۔ مان لیجیے! بہت سی لانچیں چل رہی ہیں، موٹر چل رہی ہے، ٹیکسی چل رہی ہے، تو پیسہ بچاکر کسی غریب کی بیٹی کا نکاح کرادو، کہو کہ یہ دس ہزار روپے ہم سے تحفہ لے لو یا کسی اور ضروری کام میں خرچ کردو بھائی! دو چار بچوں کو حافظ بنوادو، ہزاروں نیک کام ہیں جن میں خرچ کرسکتے ہیں لیکن مال کو ان فضول رسموں میں خرچ کرنے سے یہ خرابی پیدا ہوگی جو خاندان میں غریب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں بھی مال دار رشتہ دار کا مقابلہ کروں گا چاہے قرض ہی لینا پڑے۔ ایسا کوئی کام نہ کیجیے کہ جس سے پورے خاندان والے مجبور ہوکر حیثیت سے زیادہ خرچ کریں، اگر ایک بچے کو پیچش ہوتی ہے، تو اس کی رعایت سے ماں دوسرے تندرست بچوں کو بھی کباب نہیں دیتی کہ تمہارے کباب کو دیکھ کر میرا بیمار بچہ روئے گا۔ ایسے ہی امّت کا خیال کرو، نفسی نفسی نہ کرو۔ اسی طرح جہیز کی لعنت ہے آج کل لڑکے والا بابا کہتا ہے کہ میرا بیٹا امریکا پڑھنے جائے گا۔ جہیز میں امریکا تک پہنچنے کا خرچہ بھی دو، ایک کار بھی دو اور ٹیلی ویژن بھی دو اور میرے بیٹے کے لیے دوکان کھلوادو۔ اگر ڈاکٹر ہے تو اس کو میڈیکل اسٹور کھلوادو یا ہسپتال بنوادو۔ بیٹی والوں سے پیسہ مانگنا یہ رشوت ہے، حرام ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ بیٹی والے سے کہہ دیتے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کو تنگدستی ہے، کچھ مقروض بھی ہیں،آپ کچھ نہ دیجیے۔ میرے گھر میں سب کچھ موجود ہے ہمیں آپ کی بیٹی چاہیے دولت نہیں چاہیے اور کوئی طعنہ بھی نہیں دے گا۔ یہ عہد داماد کے باپ اور اس کی ماں لکھ کر دے دیں کہ تمہاری بیٹی کو کوئی طعنہ نہیں ملے گا۔ لیکن آج افسوس یہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ نمازی لوگ بھی طعنہ دیتے ہیں۔ اگر بیوی غریب ہے، کچھ نہیں لائی یا کم لائی، تو شوہر صاحب کہتے ہیں کہ ارے! تیرے باپ نے کیا دیا۔ تجھ سے نکاح کرکے میں تو پچھتا رہا ہوں، فلاں جگہ نکاح کرتا تو مجھ کو اتنا ملتا۔ کیا ہورہا ہے دوستو! یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ اس لیے دل سیاہ ہورہے ہیں اور گھروں میں لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں۔ دین اور اخلاق اور شرافت کاتقاضا ہے کہ یہ کہہ دو کہ آپ بیٹی دے رہے ہیں، اپنے جگر کے