خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تعلق مع اﷲ محسوس نہیں ہوتا تو فرمایا کہ ذکر کے لیے کیفیات و سرور وغیرہ کا انتظار نہ کرے کہ جب سرور و کیف ہوگا تب ذکر کروں گا۔ ذکر شروع کردو !اﷲ کی عبادت سے مزدوری طلب نہ کرو ؎ تو بندگی چو گدایاں بشرط مزد مکن مثل گداؤں کے تو مزدوری کی شرط پر عبادت نہ کر کہ اگر سرور و کیف ملے گا تو عبادت کروں گا بلکہ بندگی کیے جاؤ ،مزدوری ملے نہ ملے، مزہ آ ئے نہ آئے ،ہمارا کام تو ان کو یاد کرنا ہے اور اعمالِ اختیاریہ کو اختیار کرنا ہے ،قرب و رضا حق کا مدار اعمالِ اختیاریہ پر ہے،کیفیات پر نہیں ہے۔ بعد عشا احقر ؔسے دریافت فرمایا کہ دوپہر کا مضمون نوٹ کیا یا نہیں؟ عرض کیا کہ آج نہ کر سکا، معمولات کرنے لگا تھا، فرمایا کہ جو مضمون تمہاری اصلاح کے لیے تمہارے لیے سرمایۂ حیات تھا کہ اگر اس کو آبِ زر سے بھی لکھتے تو بھی اس کا حق ادا نہ ہوتا اس کو نظر انداز کر دیا ۔جس وقت میں بیان کر رہا تھا تو میری روح پر وجد طاری تھا لیکن اس علم عظیم کا تجھ پر کوئی اثر نہ ہوا، معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں اپنی اصلاح منظور نہیں، میرے مضامین جو اوروں کے لیے نوٹ کرتے ہو تاکہ اُمّت کو سنا کر واہ واہ حاصل کرے لیکن جہاں اپنے نفس کی اصلاح تھی اسے غیر اہم سمجھا ،میں پھر کہہ رہا ہوں کہ دل میں جو بُت چھپے ہوئے ہیں خلافت اور جاہ وغیرہ کے نکال دو اور یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ ٗ کے مصداق بن جاؤ ورنہ محروم رہو گے۔ احقرؔ نے عرض کیا کہ نہ معلوم کیا بات ہے عقل پر گناہوں کا کیا عذاب ہے کہ بہت غلطیاں ہو رہی ہیں نہ معلوم کیا قسمت میں لکھا ہے۔ اس پر فرمایا کہ تنبیہ پر بجائے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کے مایوسی ہونے لگنا اور یہ سوچنے لگنا کہ کہیں میرا خاتمہ خراب نہ ہو جائے ،زمین سے لوحِ محفوظ تک پہنچنے لگنا یہ شیطان کا دوسرا حربہ ہے وہ چاہتا ہے کہ یہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہو اور غیر اختیاری امورسے مایوس کرکے اعمالِ اختیاری سے غافل کر دے تاکہ مرنے کے بعد پھر اس کو خائب و خاسردیکھوں پس اصلاح اور اعمالِ اختیاری میں مشغول ہونا چاہیے۔ جب غلطی پر تنبیہ کی جائے تو اس کی اصلاح کی فکر کرے، اﷲ تعالیٰ سے استغفار کرے،آیندہ