خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
موقعوں پر بچوں پر مسلط ہو کر تماشے کراتا ہے تاکہ خلل پڑے اور لوگ علم حاصل نہ کرسکیں۔ لِکُلِّ شَیْءٍ اٰفَۃٌ وَّلِعِلْمٍ اٰفَاتٌ ہر شے کے لیے ایک آفت ہے اور علم کے لیے بہت سی آفتیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مدارس میں شروع میں طالب علم بہت داخل ہو جاتے ہیں لیکن دس پندرہ میں چار پانچ ہی عالم بن کر نکلتے ہیں۔شیطان اکثر کو بہکا دیتا ہے،کسی کو کچھ پریشانی لاحق ہو گئی، کچھ بیماری ہو گئی یا پڑھنے میں دل نہ لگا بس وہ کان میں پھونک دیتا ہے کہ چھوڑو علم حاصل کر نا تمہارے بس کانہیں ہے ۔ لیکن جو لوگ کام میں لگے رہتے ہیں اور کسی بات کی پر وا نہیں کر تے وہی اس کے مکائد سے محفوظ رہتے ہیں۔ شیطان کو یہ بات کب پسند ہو سکتی ہے کہ اﷲ کا علم پھیلے اور کوئی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہو جائے،اس لیے وہ علم سے روکنے میں اپنی پوری قوت صَرف کرتا ہے۔ مدرسہ کا ایک بچہ تسبیح لایا اسے حضرتِ والا نے روزانہ ۳۰۰؍ بار اﷲ اﷲ کرنا بتادیا۔ فرمایا کہ ہم اس کے گرو ہیں یہ ہمارا سب سے چھوٹا چیلا ہے۔ مشایخ پہلے طالب علم کو مرید ہونے کو منع فرماتے تھے۔ حضرت مولانا تھانوی نے طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے بیعت ہو نے کی خواہش ظاہر کی تھی فرمایا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اس وقت علم حاصل کر نے میں لگے رہو ۔لیکن اب کیوں کہ فتنے کا زمانہ ہے، جو طالب علم بغیر کسی اﷲ والے سے تعلق کیے ہوئے علم حاصل کر تے ہیں مدرسوں سے بالکل کورے نکلتے ہیں، کتابی علم ہوتا ہے سینے نور سے خالی ہوتے ہیں۔ لہٰذا میرے شیخ نے اس فیصلے کو تبدیل فرمایا، اور فرمایا کہ اس زمانے میں طالب علموں کو چاہیے کہ کسی اﷲ والے سے بیعت ہوجائیں تاکہ علم کا نور ان کے دلوں میں اُتر جائے اور عمل کی توفیق ہو جائے۔ زمانے کے ساتھ احکام بدلتے رہتے ہیں ۔اﷲ اﷲ کر نے کی برکت سے ان طلبا کی باتوں میں اثر ہی کچھ اور ہو جاتا ہے اور جو اس زمانے میں اﷲ اﷲ نہیں کرتے وہ کیو ں کہ خود عمل سے کورے ہوتے ہیں ان کی باتوں میں اثر بھی نہیں ہوتا۔ کالج کے ایک طالب علم حاضر ہوئے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جو معمولات بتائے تھے پورے کر رہے ہیں ؟عرض کیا: جی ہاں! کلمہ طیبہ کی جو مقدار آپ نے بتائی تھی روزانہ پوری کر لیتا ہوں۔ فرمایا کہ ہاں یہ بہت ضروری ہے۔ اﷲ کا نام لینے