خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ اور پیر کی کیا حیثیت ہے، ہدایت تو نبی بھی نہیں دے سکتا اﷲ تعالیٰ ہی دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ؎ دیکھیے:حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو طالب کی ہدایت کے لیے کتنی دعائیں مانگیں اور سید الانبیاء سے بڑھ کر کس کی دعا ہوسکتی ہے، کتنی دلسوزی فرمائی،یہاں تک فرمایا کہ میرے کان ہی میں کلمہ پڑھ دو لیکن ابو طالب کو ہدایت نہ ہوئی۔ ابوطالب کو ہدایت نہیں دی تاکہ لوگ نبی کو خدا نہ سمجھ لیں۔ اور ابو طالب کو ہدایت نہ دے کر اﷲ نے اُمّت کو اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبدیت کا عروج دکھایا کہ ہمارے نبی کی عبدیت خدا کی حاکمیت کے سامنے سرنگوں ہے اور اس طرح عبدیت نبوت اُمّت کے لیے باعث فتنہ ہونے سے محفوظ ہوگئی۔ ورنہ اُمّت یہ سمجھ لیتی کہ نبی کو بھی خدائی اختیارات ہیں، کچھ دخل ہوتا ہے کہ جس کو نبی چاہتا ہے اس کو ہدایت ضرور ہوجاتی ہے پس جو عبدیت خدائی حدود میں داخل ہوکر باعثِ فتنہ ہوجاوے وہ کمالِ عبدیت نہیں بلکہ زوالِ عبدیت ہے پس آپ کییہ دعا قبول نہ فرماکر اﷲ تعالیٰ نے عبدیتِ نبوت کا کمال ظاہر فرمایا۔ اور ہدایت کے نہ ہونے سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقبولیت اور سیادت الانبیاء کے منصب میں کوئی نقص نہیں آتا کیوں کہ آپ ہی کی صحبت کے فیض سے جہاں لاکھوں صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ہدایت یافتہ ہوکر کالنجوم درخشاں ہوئے تو ایک ابو طالب کی ہدایت نہ پانے سے آپ کے کمالِ مقبولیت میں کیا نقص آسکتا ہے۔ دراصل حق تعالیٰ کو اپنی حاکمیت و کبریائی دکھانی تھی جو ابو طالب کو ہدایت نہ ہوئی۔ جس حکیم سے سینکڑوں مریضوں کو شفا ہوجاوے اور کسی ایک مریض کو نہ ہو تو کیا یہ کہیں گے کہ اس حکیم کے ہاتھ میں شفا کی کمی ہے؟ ------------------------------