خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضرت یوسف علیہ السلام کے بیڑیاں پڑ رہی ہیں زنداں میں ڈالا جارہا ہے سب کچھ منظور ہے لیکن محبوب کی نافرمانی منظور نہیں ؎ حُسن جب مقتل کی جانب تیغ برّاں لے چلا عشق اپنے مجرموں کو پابہ جولاں لے چلا آں چنانش انس و مستی داد حق کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق زنداں میں انہیں ایسا عشق و مستی اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ نہ پھر انہیں زنداں یاد آیا نہ زنداں کی تاریکی ؎ کشتگانِ خنجر تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگراست جن کے سینے اﷲ کی محبت سے خالی ہیں وہ اس خنجر تسلیم کی لذّت کو کیا جانیں۔ ان دنیادار بوالہوسوں کو کیا معلوم کہ اﷲ کے غم میں کیا لذّت ہے، وہ تو ہوس رانی میں لگے ہوئے ہیں اور اس غم سے محروم ہیں جو اﷲ کی محبت میں اپنی ہوس کو تشنہ رکھنے میں آتا ہے اور خواہشات کو شمع رضائے الٰہی میں جلانے سے میسر آتاہے۔ سوز غم تو پروانوں کو ہی ملتا ہے، کبھی کسی مکھی کو شمع پر جلتے ہوئے دیکھا ہے؟ مکھی کیا جانے کہ شمع پر جل جانے میں کیا مزہ ہے۔ سرمد بڑے مشہور صوفی گزرے ہیں دہلی میں مدفون ہیں فرماتے ہیں ؎ سرمد غمِ عشق بولہوس را نہ دہند سوز غمِ پروانہ مگس را نہ دہند اﷲ تعالیٰ اپنا عشق بوالہوس یعنی دنیا داروں کو نہیں دیتے،اپنے عاشقوں کو عطا فرماتے ہیں۔ پر وانے کا سوزِغم پروانے کو ہی دیتے ہیں مکھی کو نہیں دیتے۔ یہ دنیا دار تو مکھی ہیں جو دنیا کی لذتوں اور گناہوں کی غلاظت پر بھنبھنا رہی ہے، اپنی ہوس کے تقاضوں پر عمل کررہی ہیں انہیں پروانوں کا سوز غم یعنی اﷲ تعالیٰ کا عشق نصیب نہیں۔ کیا کسی مکھی کو شمع کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟ جیسے مکھی شمع کے عشق سے محروم ہے ایسے ہی