خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کارِ دنیا را زکل کاہل ترند در رہ عقبیٰ ز مہہ گومی برند یہ دنیا کے کاموں سے کاہل نظر آتے ہیں تم آخرت کے کاموں سے کاہل ہو۔ ذرا ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھ کر اﷲ اﷲ کرکے دکھا دو تو پتا چل جائے کہ کیسے جفا کش ہو۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت دل میں ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں، اور آخرت کی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا آخرت کے تابع ہے، آخرت حقیقت ہے دنیا سایہ۔ سائے کے پیچھے بھاگو گے حقیقت اور دور ہوتی جائے گی۔ آخرت کو پکڑلو سایہ خود قبضے میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے اﷲ والوں کو روزی بھی عزت سے ملتی ہے، وہ دنیا کو ٹھکراتے ہیں دنیا ان کے قدموں میں آتی ہے۔ بس اﷲ والے بن جاؤ یعنی جو مشقتیں اس راہ میں اٹھانی پڑیں انہیں جھیل لو۔ کیا جن کے لیے ہم قربان ہونے کو تیار ہیں انہیں اتنی قدرت نہیں کہ ہماری ضروریات کو پورا کردیں۔ جب آخرت عطا فرمادیں گے تو دنیا جیسی حقیر چیز کیوں نہ دیں گے۔ بہرحال اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے اور والدین اگر اس راستے میں حائل ہوتے ہیں انہیں نرمی سے سمجھادینا چاہیے۔ اگر کبھی کچھ سخت الفاظ نکل جائیں تو دوسرے وقت انہیں راضی کرلو۔ والدین کے سامنے کندھوں کو جھکائے رہو اور اُف تک مت کہو۔ ہاں اگر کسی گناہ کے کام کا حکم کریں تو اطاعت مت کرو۔ والدین جو اﷲ کے راستے میں حائل ہوتے ہیں یہ ان کی نادانی کی محبت ہے حالاں کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا بچہ اﷲ والا ہوجائے۔ نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ جو نیک کام یہ کرے گا اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے گا۔ ان کے مرنے کے بعد بھی جب تک نیک اولاد زندہ رہتی ہے والدین کو ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ یہ کوٹ پتلون والے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ ان کی کار کام آئے گی، نہ بنگلہ کام آئے گا۔ ان والدین کو تو اپنی خوش نصیبی پر شکر ادا کرنا چاہیے بجائے اس کے فکر مند ہوتے ہیں۔ مجھے تو انتہائی خوشی ہو اگر مظہر میاں خالی دین کے کام میں لگے رہیں اور دنیا کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوں تو مجھے تو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ خوش قسمتی کو اگر آدمی تباہی سمجھ لے تو اس کی بدنصیبی ہے۔