خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا؎ وہ یوں سوچتا ہے کہ حُسنِ سلوک سے پیش آتا ہوں اگر چہ میرے نفس کو تکلیف ہوتی ہے لیکن میرا اللہ اس سے خوش ہوگا اگر میں اسے معاف کردوں۔حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک صحابی کا وظیفہ بند کر دیا تھا کیوں کہ نادانی کی وجہ سے ان کی بیٹی کو تہمت لگانے والوں میں شریک ہو گئے تھے۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیا آیاتِ معافی نازل ہوئیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا صدیق کو یہ پسند نہیں کہ وہ ہمارے ایک بندے کی خطا معاف کردیں تاکہ اللہ ان کی خطائیں معاف کر دے۔ صدیق کو یہ زیبا نہیں کہ وہ بُرائی کرنے والوں کے ساتھ بُرائی سے پیش آئے۔صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ان صحابی کو معاف فرمادیا اور پہلے سے زیادہ احسان فرمانے لگے۔ ایک بزرگ کشتی پر جارہے تھے اس پر کچھ بھانڈ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان بزرگ کامذاق اڑانا شروع کر دیا۔ بہت سے لوگ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی ملے جس کا مذاق اڑایا جائے، یہ نہیں دیکھتے کہ کس کے ساتھ مذاق کیا جائے اور کس سے نہیں۔ ان بزرگ نے دعا کی کہ اے اللہ!ان لوگوں کو نظر عطافرمادیجیے یہ مجھے پہچانتے نہیں میرے دل کو جو تعلق آپ کے ساتھ ہے یہ اسے جانتے نہیں۔جب کسی نبی نے یا ولی نے مظلوم ہو کر ظالم کے لیے دعا کی ہے وہ تیر کی طرح پہنچی ہے۔جس سے تکلیف پہنچے اس کے لیے دعا کیا کرو بہت جلد قبول ہوتی ہے۔ ان اللہ والے بزرگ کی دعا قبول ہو گئی اور جب ان بزرگ کا مقام منکشف ہوا تو قدموں میں آگئے اور معافی چاہی اوروہ لوگ اسی وقت صاحبِ نسبت ہوگئے۔میرے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک برا بھلا کہنے والے کو اس سستی کے زمانے میں پانچ روپیہ کی امرتی بھیجی تھی اور فرمایا تھا کیوں کہ آپ میرے محسن ہیں آپ نے میرے گناہ دھودیے اس لیے یہ نذرانہ پیش کرتا ہو۔ (ایک صاحب نے کہا کہ میں نے یہ ملفوظ پڑھا ہے۔)ارشاد فرمایا کہ میں نے پڑھا پڑھایا نہیں میں نے تو اپنے شیخ سے سنا ہے۔ شیخ سے سنی ہوئی بات کچھ اور اثر کرتی ہے۔ پڑھنے میں وہ بات کہاں ملتی ہے۔ ------------------------------