خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہم نے اپنی محبت کی امانت پیش کی آسمانوں اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو انہوں نے مارے ڈر کے انکار کردیا اور انسان نے اس بارِ امانت کو اٹھا لیا۔ بار ِامانت یعنی احکامِ شریعت کو اٹھانے سے زمین و آسمان نے اپنے ضعف کی وجہ سے انکار کر دیا لیکن انسان نے اٹھالیا اس وجہ سے کہ اس کے اندر عشق کامادّہ تھا، محبت میں آدمی اپنی طاقت سے زیادہ کام کر جاتا ہے حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ انسان نے اس بارِ امانت کو اٹھا لیا کہ میاں آپ حکم کریں اور میں نہ اٹھاؤں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا ؎ ترے جلوؤں کے آگے جان کو ہم کیا سمجھتے ہیں میاں نے جو آگے فرمایا کہ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًایہ دشنامِ محبت ہے۔ جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے سے کوئی بوجھ اٹھانے کو کہے جو اس بچے کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ بچہ اٹھالے تو باپ محبت سے کیا کہتا ہے ارے بدھو! یہ تو نے کیا اٹھالیا یہ محبت میں کہتا ہے۔ یہاں جو میاں نے ظالم کہا تو یہ بوجہ محبت ہے۔ یہاں میاں نے اپنے بندوں کی دلجوئی کے لیے اپنا پیمانۂ محبت چھلکادیاکیوں کہ وہ ہمارے مزاج سے واقف ہیں کہ یہ ظالم کہنا محبت کی بات ہے ہمارے بندے ہماری اس بات کو سمجھ لیں گے کہ ہم جو یہ ظالم کہہ رہے ہیں تو یہاں یہ معنیٰ نہیں کہ تم سچ مچ ظالم ہو بلکہ اس وقت ہم مارے محبت کے یہ کہہ رہے ہیں جیسے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ؎ مستی سے ترا ساقی کیا حال ہوا ہوگا جب تو نے وہ مے ظالم شیشے میں بھری ہوگی یہاں شیخ کو مرید ظالم کہہ رہا ہے ۔ایک خاص مقامِ محبت پر یہ کہہ رہا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ علمائے عاشقین نے ہی سمجھا ہے۔ خشک مولوی اس کا ترجمہ سمجھ بھی نہیں سکتاتھا۔اسی انسان کا نام قرآن میں جگہ جگہ کس عزت و اکرام سے لیا گیا ہے،فرماتے ہیں: وَ اتَّخَذَ اللہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ؎ اور: ------------------------------