خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
رہے ہو؟ تو فرمایا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔ بادشاہ نے صرف امام صاحب کی وجہ سے مدرسہ بند نہیں کیا ورنہ اس کا ارادہ تھا کہ مدرسے میں تالا ڈال دے کیوں کہ مدرسہ کے تمام طلبہ سے بادشاہ نے یہ سوال کیا تو کسی نے کہا کہ میں واعظ بنوں گا کسی نے کہا کہ میں مدرّس بن کر اُمّت میں دین کی اشاعت کروں گا کسی نے کہا کہ میں امام بنوں گا۔ غرض سوائے امام صاحب کے کسی نے یہ نہیں کہا کہ علم اس لیے سیکھ رہا ہوں کہ اللہ کو راضی کروں گا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر یہ لڑکا آج مدرسے میں نہ ہوتا تو میں مدرسہ کو تالا لگا دیتا کیوں کہ سارے طالب علم دنیا کے طالب تھے، صرف یہ لڑکا اللہ کا طالب ہے۔ پس علم کے حصول میں نیت کی درستگی کی بہت ضرورت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُمّت کو دین سکھانے کی یا وعظ کہنے کی نیت کرنا یا درس و تدریس کی نیت کرنا بھی تو دین معلوم ہوتا ہے، پھر اس کی نیت کرنے میں کیا نقصان ہے؟ تو اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کرو کہ لیلیٰ اپنی رضا اور ناراضگی کا ایک قانون شایع کردے کہ میں فلاں بات سے اور عمل سے راضی ہوتی ہوں اور فلاں فلاں باتوں سے ناراض ہوتی ہوں اور اس قانون کو پڑھانے کے لیے وہ مدرسے بھی قائم کردے۔ اب جو لوگ لیلیٰ کے قانون کو حاصل کر رہے ہوں ان میں کسی کی نیت یہ ہوکہ میں لیلیٰ کے مدارس کا مدرّس بنوں گا یاکسی کی نیت یہ ہو کہ میں لیلیٰ کے محل کی مسجد کا امام بنوں گا، کسی کی نیت یہ ہو کہ لیلیٰ کا قانون سیکھ کر میں اس کے کسی ضلع میں کمشنر بن جاؤں گا اور کسی کی نیت یہ ہو کہ میں لیلیٰ کا قانون اس لیے سیکھ رہاہوں کہ اس کے ذریعےیہ معلوم کروں گا کہ لیلیٰ کس بات سے ناراض ہوتی ہے تا کہ اس سے بچوں اور وہ کس بات سے خوش ہوتی ہے تاکہ اس کا اہتمام کروں۔ خود سوچ لو کہ اگر لیلیٰ کو سب طلبہ کی نیت معلوم ہوجائے تو وہ کس سے زیادہ خوش ہوگی؟ وہ اس شخص سے خوش ہو گی جو اس کا قانون اس کی ناراضگی سے بچنے اور اس کی رضاحاصل کرنے کے لیے سیکھ رہا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ بھی اس طالب علم سے خوش ہوتے ہیں جس کی نیت ان کے قانون کے سیکھنے سے محض ان کی رضا ہو۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ شخص عہدہ کا اور جاہ کا طالب نہیں ہے، یہ ہمارا طالب ہے۔ یہی ہے یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ؎ وَجْہٌ کے معنیٰ چہرہ کے ہیں۔اس سے حق تعالیٰ کی شانِ محبوبیت ------------------------------