خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تو ہوگا لیکن یہ غم اتنی عظیم دولت ہے کہ لاکھ تہجد و اشراق ایک طرف اور یہ غم ایک طرف۔لاکھوں وظیفوں اور ذکر و نوافل سے اﷲ کا وہ قرب نصیب نہیں ہو سکتا جو غم اٹھانے سے ہوتا ہے ۔ غم اٹھانا کوئی معمولی کام نہیں دل گردہ والوں کا کام ہے ۔یہ ان ہی کا کام ہے جو اﷲ کی محبت میں جان کو ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے سینوں میں ہر دم تلواریں چل رہی ہیں۔ اپنی خواہشات کو تہہ تیغ کر رہے ہیں۔خود اپنی آرزوؤں کی لاشیں دیکھ رہے ہیں کہ فلاں خواہش مر گئی، فلاں تڑپ رہی ہے، فلاں دم توڑ رہی ہے، مجاز کی طرف میلان ہوا اس نے گلا دبا دیا۔ بدنظری کے تقاضے کو کچل کر دل کا خون کر لیا۔یہ اگرچہ جسم اور گردن لیے پھرتا ہے لیکن دراصل شہید ہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ عَشَقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَہِیْدٌ؎ علماء نے لکھا ہے کہ کَتَمَ سے مراد کتمان عن الخلق ہے یعنی مخلوق سے تذکرہ نہیں کرتا، آنکھوں سے اس کی طرف نہیں دیکھتا،پاؤں کو اس کی گلی میں نہیں لے جاتا، کانوں سے اس کی بات نہیں سنتا، دل میں اس کا خیال نہیں لاتا۔وَعَفَّ یعنی آنکھوں کو پاک رکھا اس کو دیکھنے سے، کانوں کو پاک رکھااس کی باتوں کو سننے سے،زبان کو پاک رکھا اس کا تذکرہ کرنے سے،پاؤں کو پاک رکھا اس کی گلی میں جانے سے، دل کو پاک رکھا اس کا خیال لانے سے ۔یہاں تک کہ اسی حالت میں اس کو موت آگئی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ شہید ہے۔ شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ پس کچھ دن کی محنت ہے۔اگر اﷲ کے راستے کایہ غم بر داشت کر لیا اورغیر اﷲ سے دل کو فارغ کر لیا تو اﷲ کے قرب کی اور ان کی محبت کی ایسی مٹھاس اور ایسی لذت نصیب ہو گی جو نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ کسی وہم و خیال میں گزری جس کو حق تعالیٰ ارشاد فرماتےہیں: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ؎ ------------------------------