خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ تعالیٰ کے راستے کا بہت بڑا بت ہے۔ جس کے دل میں اﷲ کے علاوہ کوئی اور طلب ہوگی اسے کبھی اﷲ نہیں مل سکتا کیوں کہ یہ شخص اﷲ کا طالب نہیں ہے، جاہ کا طالب ہے مولیٰ کو بھی چاہ رہا ہے اور غلاموں کی بھی طلب ہے ، اسے مولیٰ نہیں مل سکتا، کیوں کہ اس نے مولیٰ کو نہ پہچانا۔ اگر مولیٰ کی معرفت و عظمت اس کے قلب پر منکشف ہو جاتی تو غلاموں کی عظمت بھلا دل میں رہ سکتی تھی؟ جس کے پاس ایک لاکھ روپے کا نوٹ ہو اور وہ آٹھ آنے کی تمنا کرے تو کہا جائے گا اسے ایک لاکھ روپے کی معرفت نہیں۔ خالق مل رہا ہو اور مخلوق کی تمنا کر ے تو یہ شخص غیر عارف ہے ۔ خالق کے ملتے ہوئے مخلوق کی تمنا کرنا معرفت کے خلاف ہے۔ اس کو حق تعالیٰ نہیں مل سکتے۔باد شاہ اور بھنگیوں کی دعوت ایک دسترخوان پر نہیں ہو سکتی۔یا تو باد شاہ ہی کو بلالو یا بھنگیوں ہی کو بلا لو۔ باد شاہ کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ بھنگیوں کو بھی مقام عظمت دیا جائے۔ تو جس دل میں خالق کی طلب کے ساتھ مخلوق کی طلب شامل ہو گی اسے خالق کی معیت نصیب نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس نے اﷲ کو پہچا نا ہی نہیں ۔عارف کو سوائے خدا کے کچھ مطلوب نہیں، وہ جانتا ہے کہ اگر اﷲ مل گیا تو سب کچھ مل گیا۔ وہ تو یوں کہتا ہے ؎ جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری جس کو اﷲ مل جائے اس کو اور کیا چاہیے۔ اگر اﷲ مل گیا اور فرض کر لو کہ مخلوق نہیں ملی تو کیا نقصان ہے ۔ہاں مخلوق تو واہ واہ کر رہی ہو اور اﷲ کا فضل متوجہ نہ ہو تو کیا وہ شخص کامیاب ہے ؟ پس صرف اﷲ سے اﷲ کو مانگو گوشۂ گم نامی کو دل سے محبوب رکھو، اگر گم نام رہنا دل کو پسند آگیا تو سمجھ لو کہ ایمان ہے ورنہ نفاق کا خطرہ ہے۔ دل کی گہرائیوں میں جاہی اور باہی دونوں قسم کے بتوں کو تلاش کر تے رہو اور جہاں ان کا سراغ ملے فوراً توڑ ڈالو یعنی اﷲ کے سامنے خوب گڑ گڑا کر توبہ کرو کہ اے اﷲ!اگر میرے دل کی گہرائیوں میں کہیں آپ کی طلب کے علاوہ کچھ اور بت چھپے ہوئے ہیں تو اے اﷲ!آپ ان کو میرے دل سے نکال دیجیے۔ جس طرح کعبہ سے آپ نے تین سو ساٹھ بُت نکال دیے تھے ،اے اﷲ!یہ دل بھی آپ کا گھر ہے اے اﷲ!آپ اپنے اس گھر کو بھی ہر قسم کے