خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یہ ہے معرفت۔ اصل میں ہم دنیا کے اور جسم کے معاملات پر ان کی رحمت کو قیاس کرتے ہیں اس وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے جیسے دنیا میں کسی مریض کے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوتا ہے اور ناقابل علاج ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ناقابل علاج ہوگیا، اب اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوگا کیوں کہ اس میں اب استعداد صحت ختم ہوچکی ہے لیکن روح کے معاملات کو کبھی اس مثال پر قیاس نہ کرنا کیوں کہ روح کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اُلوہیت کیا ہماری استعداد سے چھوٹی ہے یا ہماری استعداد کی پابند ہے یا اﷲ تعالیٰ مجبور ہیں کہ فلاں بندے نے کیوں کہ گناہ کرکے خود کو تباہ کرلیا اس لیے نعوذ باﷲ اب ہم اس کو اپنا بنانے پر قادر نہیں لہٰذا سند اعمال صالحہ یعنی سند استعداد ولایت دکھاؤ تو ہم اپنا بنائیں گے۔ ارے خوب یاد رکھو کہ اﷲ کی رحمت کسی سند واستعداد کی پابند نہیں، جب وہ فضل فرماتے ہیں تو ایک منٹ میں بغیر سند و استعداد کے اپنا بنالیتے ہیں، بندہ جس قابل نہیں ہوتا اس قابل بنادیتے ہیں۔ وہ قابلیت کے پابند نہیں ہیں، نجاست پر جب ان کے آفتاب کرم کی شعاعیں پڑتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے اس کا ایک حصہ تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور ایک حصہ خشک ہوجاتا ہے۔ اسی نجاست کے ذرات برسات میں کھاد ہوجاتے ہیں اور وہ حصۂ زمین سبزہ زار ہوجاتا ہے۔ اور خشک حصہ تنور میں جل کر نور بن جاتا ہے۔ بولیے نجاست میں کیا خوبی و استعداد تھی؟ ان کی رحمت نجاست کو سبزہ زار بنادیتی ہے نور بنادیتی ہے۔ سبزۂ و نور بننے سے پہلے اگر نجاست یوں کہے کہ میں تو کسی قابل نہیں کیوں کہ میرے اندر تو سبزہ زار بننے کی صلاحیت ہی نہیں تو یہ اس کی حماقت اور معرفت کی کمی ہے۔ ارے تونے اپنی استعداد کو دیکھا اﷲ کی رحمت کو نہ دیکھا جو خالق قابلیت و استعداد ہے۔ تہجد کے وقت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو الہام ہوا کہ دو ہزار میل کی دوری پر ایک ابدال کا انتقال ہورہا ہے جاؤ اس کی نماز جنازہ پڑھانی ہے اور فلاں عیسائی کو جو صلیب ڈالے ہوئے گرجا میں پوجا کررہا ہے کلمہ پڑھا کر کرسئ ابدالیت پر بٹھانا ہے۔ بولیے اس عیسائی میں کیا استعداد تھی، کفرو طغیان میں مبتلا تھا ابھی تو کوئی