خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کر اپنے دامن کو خالی پاتا ہے تو اس کی نگاہ اﷲ کی رحمت پر رہتی ہے کہ میں تو کسی قابل نہیں میاں کی رحمت بڑی ہے، اپنے عمل کے اعتبار سے تو میں مستحق عذاب ہوں لیکن حق تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اپنی قدرت کاملہ قاہرہ سے وہ ایک منٹ میں نہ جانے کیا سے کیا بناسکتے ہیں۔ ان کی عطا کسی استعداد و قابلیت کسی قاعدہ قانون کی پابند نہیں ہے۔ مطلع ابر آلود ہوتا ہے ایک ہوا چلتی ہے اور گھنگھور گھٹاؤں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارے قلب کا اُفق گناہ کی گھٹاؤں سے گھر گیا، نور کی کہیں گنجایش نہیں رہی لیکن اپنی گھٹاؤں کو مت دیکھو، ان کی نسیم کرم پر نظر رکھو، اس کے سامنے یہ گناہ کیا چیز ہیں۔ تو اپنی بے مائیگی اور فنائیت کے اعتبار سے اپنی سابقہ زندگی کے گناہوں کو یاد کرنا یہ تو پسندیدہ ہے، اﷲ کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ مٹا ہوا رہے۔ ایسا شخص کہ جس نے کبھی کوئی گناہ تو نہیں کیا لیکن اپنے اعمال پر نظر ہوگئی کہ میں ایسا ہوں، میرے ان اعمالِ حسنہ سے مجھ کو بڑا قرب حاصل ہوگیا ہوگا۔ سمجھ لو شیطان نے اس کا راستہ ماردیا، ایسا شخص ہرگز مقرب نہیں ہوسکتا جو قرب حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس سے تو وہ گناہ گار اچھا ہے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے نادم رہتا ہے۔ ندامت اور شرمندگی اﷲ کو پسند ہے لیکن کبھی کبھی شیطان کان میں پھونک دیتا ہے کہ تم نے تو ساری زندگی گناہوں میں کاٹ دی حتیٰ کہ اب گناہوں کی استعداد بھی نہ رہی اور ولایت موقوف ہے استعداد ہوتے ہوئے تقاضے پر عمل نہ کرنا، اب تمہیں کیا قرب نصیب ہوگا، ولایت کا اعلیٰ مقام اب تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا۔ جب دل میں یہ خیالات آئیں تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا زبردست دھوکا ہے۔ وہ مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اسے اﷲ کا قرب حاصل نہ ہوسکے۔ گناہ کا ایک تعلق تو بندے کی ذات سےہے کہ واقعی ہم اپنے عمل کے اعتبار سے کسی قرب خاص کے مستحق نہیں لیکن دوسرا تعلق اﷲ کی ذات سے ہے کہ وہ ہمارے گناہوں سے بھی عظیم ہیں ایک منٹ میں گناہوں کو دھوکر تاج خلافت پہناسکتے ہیں اس لحاظ سے ان کی رحمت سے ہرگز ہرگز کسی حال میں نا امید نہ ہونا چاہیے ؎ اے عظیم از ما گناہان عظیم تو توانی عفو کردن در حریم